زہیر عبّاس
محفلین
سائنس کی دنیا کے سینئر منتظم قدیر صاحب کی فرمائش پر
http://www.scientificamerican.com/article/15-answers-to-creationist/ کا اردو ترجمہ کیا گیا تھا وہ پیش خدمت ہے۔ تصاویر اور اس کے عناوین ویب سائٹ سے نہیں لئے گئے بلکہ انٹرنیٹ سے تلاش کرکے ان کو شامل کیا گیا ہے۔
نظریہ ارتقاء پر اٹھائے جانے والے پندرہ اعتراضات اور ان کے جوابات
جب چارلس ڈارون نے ١٤٣ برس پہلے نظریہ ارتقاء بذریعہ قدرتی چناؤ کے متعارف کروایا، تو اس دور کے سائنس دانوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا، تاہم رکازیات ، جینیات ، علم حیوانیات ، سالماتی علم الحیات اور دوسرے ذرائع سے بتدریج حاصل ہونے والے ثبوتوں نے ارتقاء کو معقولیت کی حد تک استوار کر دیا۔ آج یہ جنگ ہر جگہ جیتی جاچکی ہے۔ تاہم عوام الناس کے ذہن اب بھی اس کو قبول کرنے میں تردد کا شکار ہیں۔
خاکہ 1ذہین صورت گری اور نظریہ ارتقاء کے حامیوں کے درمیان بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے اپنے اپنے دلائل دیئے جا رہے ہیں۔
پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی سب سے جدید اقوام پر بھی تخلیقی سیاست دانوں، قاضیوں اور عام شہریوں پر زبردست طرح سے اپنا اثرو رسوخ قائم کئے ہوئے تھے اور ان کو باور کروانے میں کامیاب رہے تھے کہ ارتقاء میں نقص ہے اور اس کے کوئی ثبوت و شواہد موجود نہیں ہیں۔ "ذہین صورت گری" جیسے تخلیقی خیالات کو نظریہ ارتقاء کے متبادل طور پر اسکولوں میں پڑھایا جاتا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت کے وقت اوہائیو بورڈ آف ایجوکیشن ایسی کسی تبدیلی پر بحث و مباحثے میں الجھا ہوا ہے۔ کچھ ارتقاء کے مخالف جیسا کہ فلپ ای جانسن جو قانون کے پروفیسر برکلے کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور "ڈارون کی جانچ" کے مصنف ہیں تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا "ذہین صورت گری" کے نظریئے کا مقصد اسکولوں میں خدا کے ذکر کو دوبارہ عام کرنا ہے۔
نرغے میں موجود معلم اور دوسرے اپنے آپ کو ارتقاء کا دفاع اور تخلیق کا رد کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے تھے۔ تخلیقی جو دلائل دیتے تھے وہ عام طور سے خوشنما اور ارتقاء کے متعلق غلط فہمی (یا سیدھے جھوٹ)کی بنیاد پر مبنی ہوتے تھے، تاہم تعداد اور اعتراضات کے تنوع اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی کو بھی پسپائی پر مجبور کر دیتے تھے۔
ان کو اس قابل کرنے کی مدد کرنے کے لئے کہ وہ صحیح جواب دے سکیں درج ذیل فہرست کچھ عام "سائنسی " اعتراضات کا رد ہے جو ارتقاء کے خلاف اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ قاری کو مزید اطلاعات کی رسائی تک کے ذرائع بھی دیتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ آیا کیوں تخلیقی سائنس کی اسکول کی جماعت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
1۔ ارتقاء تو صرف ایک نظریہ ہے۔ یہ کوئی حقیقت یا سائنسی قانون نہیں ہے۔
کافی لوگ ابتدائی تعلیم کے دوران پڑھتے ہیں کہ نظریہ، یقینیت کے درمیان کہیں موجود ہے - یہ ایک قیاس تو ہے تاہم کوئی قانون نہیں ہے۔ بہرحال سائنس دان اس اصطلاح کا استعمال اس طرح سے نہیں کرتے ۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنس (ناس) کے مطابق ایک سائنسی نظریہ " اچھی طرح سے قرائن و ثبوت کی بنیاد پر کی جانے والی قدرتی جہاں کے کچھ رخ کی تشریح ہے جس میں امر واقعہ، قانون ، استنباط اور جانچے ہوئے قیاس کو شامل کیا جاتا ہے۔" نظریئے کو قانون میں بدلنے کے لئے کسی قسم کی توثیقی تبدیلی نہیں کی جاتی جو ہئیت کی عمومی کیفیت ہے۔ لہٰذا جب سائنس دان نظریہ ارتقاء کے بارے میں بات کرتے ہیں - یا جوہری نظریئے یا نظریہ اضافیت کے بارے میں – تو وہ اس کی سچائی کے بارے میں کوئی جملہ شرائط کو بیان نہیں کرتے۔
خاکہ 2 نظریہ ارتقاء کے حامی از راہ تفنن قوّت ثقل کی مثال بطور نظریہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ارتقاء پر اعتراض کرنے والے اس کو کیوں قبول کرتے ہیں۔
مزید براں نظریہ ارتقاء والوں کے لئے تغیر کے ساتھ نزول کے خیال کا مطلب ارتقاء کی حقیقت کے بارے میں کہنا ہے۔ ناس امر واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے " ایک ایسا مشاہدہ جس کی بار ہا تصدق کی جاچکی ہو اور تمام عملی مقاصد کے لئے اس کو "سچا" مان لیا گیا ہو۔" رکازی نامچہ اور دوسرے کثیر تعداد کے ثبوت گواہی دے رہے ہیں کہ جاندار وقت کا ساتھ ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ ہرچند کہ کسی نے اس کا مشاہدہ نہیں کیا، تاہم بالواسطہ ثبوت واضح، قطعی اور حقیقت کو قبول کرنے پر مجبور کر دینے والے ہیں۔
عموماً تمام سائنس بالواسطہ ثبوتوں پر انحصار کرتی ہے۔ مثال کے طور پر طبیعیات دان ذیلی جوہری ذرّات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کر سکتے لہٰذا وہ ان کی موجودگی کی تصدیق کے لئے ان کے غماز راستوں کو دیکھتے ہیں جو ذرّات ابر خانے میں اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں۔ براہ راست ثبوتوں کے عدم مشاہدے کی وجہ سے طبیعیاتی نتائج کم قطعی نہیں ہو جاتے۔
2۔ قدرتی چناؤ کی بنیاد تدویری دلیل ہے یعنی کہ جو باقی رہ گئے وہ موزوں ہیں اور جو موزوں ہیں وہ باقی رہ گئے ۔
"بقائے اصلح" قدرتی چناؤ کو بیان کرنے کا ایک متنازعہ طریقہ ہے، تاہم مزید تیکنیکی توضیح بقا کی مختلف شرح اور تولیدگی کو بیان کرتی ہے۔ یعنی بجائے انواع کو موزوں اور غیر موزوں جماعت میں بیان کرنے کے اس طرح سے ان کو بیان کر سکتے ہیں کہ مخصوص حالات میں وہ کتنے بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ ایک تیز رفتار نسل بڑھانے والی چھوٹی چونچ والی سنہری چڑیا کے جوڑے اور ایک سست رفتار نسل بڑھانے والی سنہری چڑیا کے جوڑے کو ایک ایسے جزیرے پر چھوڑیں جو دانے دنکے سے بھرا ہوا ہو۔ چند ہی نسلوں میں تیز رفتار سے نسل بڑھانے والی سنہری چڑیا خوراک کے زیادہ وسائل پر قبضہ کر لیں گی۔ اگر بڑی چونچ والی سنہری چڑیا دانے کو آسانی کے ساتھ توڑ سکتی ہیں تاہم اس بات کا بھی فائدہ چھوٹی چونچ والی چڑیا کو ہی ہوگا۔ گالاپگوس جزیرے پر ہونے والی تحقیق میں پرنسٹن یونیورسٹی کے پیٹر آر جی گرانٹ نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح کی آبادی میں اتار چڑھاؤ بے لگام ہوتا ہے [ان کا مضمون "قدرتی چناؤ اور ڈارون کی سنہری چڑیاں"؛ سائنٹفک امریکن ، اکتوبر ١٩٩٩ء میں دیکھا جا سکتا ہے ]۔
خاکہ 3 "بقائے اصلح" قدرتی چناؤ کو بیان کرنے کا ایک متنازعہ طریقہ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ موزونیت سے مطابقت حاصل کرنے کو بقا کے بغیر بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ بڑی چونچ والی بیچ کو توڑنے کے لئے زیادہ مطابقت پذیر تھیں اس بات سے قطع نظر کہ ان کی یہ خصوصیت مخصوص حالات میں ان کو بچانے کے کسی خاص کام آ سکی۔
3۔ ارتقا غیر سائنسی ہے کیونکہ یہ قابل جانچ یا قابل تحریف نہیں ہے۔ یہ ایسے حالات کے بارے میں بات کرتا ہے جس کا مشاہدہ نہیں کیا گیا اور اس کو کبھی بھی دہرایا نہیں جا سکتا۔
ارتقاء کی اس طرح سے برخاستگی اس اہم اختلاف کو نظر انداز کر دیتی ہے جو اس میدان کو کم از کم دو وسیع علاقوں میں بانٹتا ہے۔ اصغری ارتقاء اور اکبری ارتقاء۔ اصغری ارتقاء انواع کے درمیان ہونے والی تبدیلیوں کو گزرے وقت میں دیکھتا ہے – وہ تبدیلیاں جو آغاز انواع کا پیش خیمہ ہوتی ہیں ، نئی انواع کا ماخذ۔ اکبری ارتقاء اس کا مطالعہ کرتا ہے کہ کس انواع کی سطح کے اوپر کس طرح سے تقسیمی جماعت تبدیل ہوتی ہے۔ اس کے شواہد اکثر اوقات رکازی نامچوں اور ڈی این اے کے تقابل سے حاصل ہوتے ہیں جو مختلف جانداروں کے آپس میں باہمی نسبت کو جاننے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔
خاکہ 4 ۔ اصغری ارتقاء انواع کے درمیان ہونے والی تبدیلیوں کو گزرے وقت میں دیکھتا ہے جبکہ اکبری ارتقاء انواع کی سطح کے اوپر تقسیمی جماعت کی تبدیلی کا مطالعہ کرتا ہے۔
ان دنوں اکثر تخلیقی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصغری ارتقاء تجربہ گاہ ( جیسا کہ خلیہ، پودوں اور پھل مکھی کی تحقیقات میں ) میں کی گئی جانچوں میں اور میدان (جیسا کہ گرانٹ کی گالاپگوس سنہری چڑیوں کی ارتقائی عمل سے گزرتی چونچ کی تحقیق میں ) ثابت ہو چکے ہیں۔ قدرتی چناؤ اور دوسرے طریقے - جیسا کہ لوئی جسمیہ تبدیلی، ہم زیستی اور دوغلیت - وقت کے ساتھ آبادی پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔
اکبری ارتقاء کی تحقیق کی تاریخی نوعیت میں براہ راست مشاہدات کے بجائے رکازیات اور ڈی این اے سے استنباط کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود تاریخی سائنس (بشمول فلکیات، ارضیات اور آثار قدیمہ کا علم، اور ارتقائی حیاتیات) میں قیاسات کو اس طرح سے جانچا جا سکتا ہے کہ آیا وہ طبعی ثبوتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور آیا کہ وہ مستقبل کی دریافتوں کے لئے قابل تصدیق اندازوں تک لے جاتے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر ارتقاء کہتا ہے کہ انسانوں کے اولین آباؤ اجداد (لگ بھگ پچاس لاکھ برس پرانے) اور جدید انسان (لگ بھگ ایک لاکھ برس پہلے) کے ظہور کے درمیان انسان نما جانور جیسی خصوصیات والے جاندار ملنے چاہئیں جس میں بتدریج بندروں کی کم اور انسانوں جیسی زیادہ خاصیت ہوں، حقیقت میں رکازی نامچہ یہی چیز بیان کرتا ہے۔ تاہم کسی کو جدید انسان کے رکاز جراسی دور (چودہ کروڑ چالیس لاکھ برس پہلے) کے طبقات میں پیوستہ نہ تو ملتے ہیں نہ ہی ملنے چاہئیں۔ ارتقائی حیاتیات معمولات میں اس سے کہیں زیادہ بہتر اندازے قائم کر سکتی ہے اور محققین مسلسل اس کی جانچ کر رہے ہیں۔
ارتقاء کو دوسرے طریقوں سے بھی رد کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم مردہ مادّے سے کسی ایک پیچیدہ حیات کی خود سے بڑھوتری کا ثبوت دیکھ لیں تو ہو سکتا ہے کہ چند مخلوقات جن کو رکازی نامچوں میں دیکھا گیا ہے اس طریقے سے پیدا ہوئی ہوں گی۔ اگر فوق ذہین خلائی مخلوق نمودار ہو جائے اور زمین پر حیات کی تخلیق کا دعویٰ کرے (بلکہ کسی ایک مخصوص نوع کا بھی)، تو خالص ارتقائی توضیح بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو جائے گی۔ تاہم ابھی تک کسی نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا۔
یہ بات غور طلب ہے کہ قابل تکذیب کا تصوّر بطور سائنس کی تعریفی خاصیت کے فلسفی کارل پوپر نے ١٩٣٠ء میں پیش کیا۔ حال ہی میں اس کے تصوّر کی مزید توسیع نے اس کے اصول کی تنگ تشریح کو پھیلایا خاص طور پر اس لئے کہ یہ سائنسی جدوجہد کی کافی ساری شاخوں کو کم کر دیتی ہے۔
4۔ بتدریج سائنس دان ارتقاء کی سچائی پر متشکک ہو رہے ہیں۔
کوئی ثبوت ایسا نہیں ہے جو اس تجویز کو پیش کرے کہ ارتقاء طرفداری کو کھو رہا ہے۔ کوئی بھی ہم جماعتی تجزیہ کا حیاتیاتی جریدہ اٹھا کر دیکھ لیں اور آپ کو اس میں ایسے مضامین مل جائیں گے جو ارتقاء کے مطالعہ کی حمایت کریں گے یا پھر ارتقاء کو بنیادی تصوّر کے بیان کریں گے۔
اس کے برخلاف سنجیدہ سائنسی اشاعت جو ارتقاء کے خلاف ہوں ناپید ہیں۔ ١٩٩٠ء کے عشرے کے وسط میں یونیورسٹی آف واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے جارج ڈبلیو گلکرسٹ نے بنیادی ادب کے ہزار ہا جریدوں کا جائزہ لیا جس میں اس کی تلاش ذہین صورت گری یا تخلیقی سائنس تھی۔ سینکڑوں ہزار ہا جریدوں میں اسے ایک بھی ایسا نہیں ملا۔ گزشتہ دو برسوں کے درمیان ساؤتھ ایسٹ لوزیانا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی باربرا فوریسٹ اورکیس ویسٹرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے لارنس ایم کراس بھی اس قسم کے جائزے میں خالی ہاتھ ہی رہے۔
تخلیقی بدلے میں جواب دیتے ہیں کہ تنگ نظر سائنسی لوگ ان کے ثبوتوں کو رد کرتے ہیں۔ اس کے باوجود نیچر ، سائنس اور دوسرے اہم جریدوں کے مدیروں کے مطابق کچھ ضد ارتقاء سے متعلق مقالاجات بھی انھیں بھیجے گئے۔ کچھ ضد ارتقاء مصنفین نے اپنے مضامین کو سنجیدہ جرائد میں بھی شایع کروایا۔ تاہم ان مقالاجات میں شاذونادر ہی ارتقاء پر کوئی براہ راست حملہ کیا گیا یا تخلیق سے متعلق اپنے دلائل دیئے گئے؛ اس کے بجائے انہوں نے اپنی پوری کوشش ارتقاء سے متعلق کچھ مسائل کو ناقابل حل اور مشکل (جس کے بارے میں کوئی انکاری نہیں ہے) ثابت کرنے میں لگا دی۔ مختصراً تخلیقیوں نے سائنسی دنیا کو کوئی ایسے اچھے دلائل نہیں پیش کئے جس سے وہ انھیں سنجیدہ لیتے۔
5۔ارتقائی حیاتیات دانوں کے درمیان بھی اختلاف موجود ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کتنی کمزور سائنس ارتقاء کی بنیاد ہے۔
ارتقائی حیاتیات دان مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث کرتے ہیں، آغاز انواع کیسے شروع ہوا، ارتقائی تبدیلیوں کی شرح، پرندوں اور ڈائنوسارس کے آباؤ اجداد میں تعلق، آیا کہ نینڈرتھال جدید انسان ہی کی کوئی قسم تھے، اور اسی طرح کے دوسرے ۔ یہ اختلافات بعینہ ایسے ہیں جیسے کہ کسی بھی دوسری سائنس کی شاخوں کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ باوجود اس کے ارتقاء کی قبولیت بطور امر حقیقی اور رہنما اصول حیاتیات میں آفاقی ہیں۔
خاکہ 5 ارتقائی حیاتیات دان مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث کرتے ہیں جس میں یہ بات بھی شامل ہیں کہ آیا نینڈرتھال جدید انسان ہی کی کوئی قسم تھے یا نہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر ارتقاء کے مخالف اپنی حق میں ثبوت پیش کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے بد دیانت تخلیقی اکثر اوقات سائنس دانوں کے تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ بحث کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکیں۔ کوئی بھی جو ماہر رکازیات ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اسٹیفن جے گولڈ کے کام کے بارے میں جانتا ہوں اسے معلوم ہوگا کہ اعتدال منقطع کے نمونے کے شریک مصنف کے علاوہ ، گولڈارتقاء کا دفاع کرنے والے سب سے خوش گفتار اور واضح کلام کرنے والے ہیں۔ (اعتدال منقطع رکازی نامچوں میں موجود نمونے کے بارے میں بتاتا ہے کہ اکثر ارتقائی تبدیلیاں مختصر ارضیاتی ادوار میں ہوئیں – جو اس مختصر دورانئے کے باوجود سینکڑوں نسلوں پر محیط ہو سکتی ہیں۔) تخلیقی گولڈ کے ضخیم نثری کام میں سے وہ جملے نکالنے میں خوش ہوتے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ارتقاء کے اوپر متشکک ہے، اور وہ اعتدال منقطع کو ایسے پیش کرتے ہیں جسے یہ نئی انواع کو راتوں رات پیدا کرتا ہے یا رینگنے والے جانور کے انڈوں سے پرندے پیدا ہوتے ہیں۔
جب بھی کسی سائنسی صاحب علم کے قول کا سامنا کریں جو ارتقاء پر سوال اٹھاتا نظر آئی تو کوشش کریں کہ سیاق و سباق کو بھی حاصل کرکے اس کے تناظر میں اس قول کو پڑھیں۔ تقریباً ثابت طور پر ارتقاء پر حملہ ایک دھوکہ دہی ثابت ہوگا۔
نظریہ ارتقاء پر اٹھائے جانے والے پندرہ اعتراضات اور ان کے جوابات
جب چارلس ڈارون نے ١٤٣ برس پہلے نظریہ ارتقاء بذریعہ قدرتی چناؤ کے متعارف کروایا، تو اس دور کے سائنس دانوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا، تاہم رکازیات ، جینیات ، علم حیوانیات ، سالماتی علم الحیات اور دوسرے ذرائع سے بتدریج حاصل ہونے والے ثبوتوں نے ارتقاء کو معقولیت کی حد تک استوار کر دیا۔ آج یہ جنگ ہر جگہ جیتی جاچکی ہے۔ تاہم عوام الناس کے ذہن اب بھی اس کو قبول کرنے میں تردد کا شکار ہیں۔
خاکہ 1ذہین صورت گری اور نظریہ ارتقاء کے حامیوں کے درمیان بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے اپنے اپنے دلائل دیئے جا رہے ہیں۔
پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی سب سے جدید اقوام پر بھی تخلیقی سیاست دانوں، قاضیوں اور عام شہریوں پر زبردست طرح سے اپنا اثرو رسوخ قائم کئے ہوئے تھے اور ان کو باور کروانے میں کامیاب رہے تھے کہ ارتقاء میں نقص ہے اور اس کے کوئی ثبوت و شواہد موجود نہیں ہیں۔ "ذہین صورت گری" جیسے تخلیقی خیالات کو نظریہ ارتقاء کے متبادل طور پر اسکولوں میں پڑھایا جاتا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت کے وقت اوہائیو بورڈ آف ایجوکیشن ایسی کسی تبدیلی پر بحث و مباحثے میں الجھا ہوا ہے۔ کچھ ارتقاء کے مخالف جیسا کہ فلپ ای جانسن جو قانون کے پروفیسر برکلے کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور "ڈارون کی جانچ" کے مصنف ہیں تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا "ذہین صورت گری" کے نظریئے کا مقصد اسکولوں میں خدا کے ذکر کو دوبارہ عام کرنا ہے۔
نرغے میں موجود معلم اور دوسرے اپنے آپ کو ارتقاء کا دفاع اور تخلیق کا رد کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے تھے۔ تخلیقی جو دلائل دیتے تھے وہ عام طور سے خوشنما اور ارتقاء کے متعلق غلط فہمی (یا سیدھے جھوٹ)کی بنیاد پر مبنی ہوتے تھے، تاہم تعداد اور اعتراضات کے تنوع اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی کو بھی پسپائی پر مجبور کر دیتے تھے۔
ان کو اس قابل کرنے کی مدد کرنے کے لئے کہ وہ صحیح جواب دے سکیں درج ذیل فہرست کچھ عام "سائنسی " اعتراضات کا رد ہے جو ارتقاء کے خلاف اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ قاری کو مزید اطلاعات کی رسائی تک کے ذرائع بھی دیتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ آیا کیوں تخلیقی سائنس کی اسکول کی جماعت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
1۔ ارتقاء تو صرف ایک نظریہ ہے۔ یہ کوئی حقیقت یا سائنسی قانون نہیں ہے۔
کافی لوگ ابتدائی تعلیم کے دوران پڑھتے ہیں کہ نظریہ، یقینیت کے درمیان کہیں موجود ہے - یہ ایک قیاس تو ہے تاہم کوئی قانون نہیں ہے۔ بہرحال سائنس دان اس اصطلاح کا استعمال اس طرح سے نہیں کرتے ۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنس (ناس) کے مطابق ایک سائنسی نظریہ " اچھی طرح سے قرائن و ثبوت کی بنیاد پر کی جانے والی قدرتی جہاں کے کچھ رخ کی تشریح ہے جس میں امر واقعہ، قانون ، استنباط اور جانچے ہوئے قیاس کو شامل کیا جاتا ہے۔" نظریئے کو قانون میں بدلنے کے لئے کسی قسم کی توثیقی تبدیلی نہیں کی جاتی جو ہئیت کی عمومی کیفیت ہے۔ لہٰذا جب سائنس دان نظریہ ارتقاء کے بارے میں بات کرتے ہیں - یا جوہری نظریئے یا نظریہ اضافیت کے بارے میں – تو وہ اس کی سچائی کے بارے میں کوئی جملہ شرائط کو بیان نہیں کرتے۔
خاکہ 2 نظریہ ارتقاء کے حامی از راہ تفنن قوّت ثقل کی مثال بطور نظریہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ارتقاء پر اعتراض کرنے والے اس کو کیوں قبول کرتے ہیں۔
مزید براں نظریہ ارتقاء والوں کے لئے تغیر کے ساتھ نزول کے خیال کا مطلب ارتقاء کی حقیقت کے بارے میں کہنا ہے۔ ناس امر واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے " ایک ایسا مشاہدہ جس کی بار ہا تصدق کی جاچکی ہو اور تمام عملی مقاصد کے لئے اس کو "سچا" مان لیا گیا ہو۔" رکازی نامچہ اور دوسرے کثیر تعداد کے ثبوت گواہی دے رہے ہیں کہ جاندار وقت کا ساتھ ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ ہرچند کہ کسی نے اس کا مشاہدہ نہیں کیا، تاہم بالواسطہ ثبوت واضح، قطعی اور حقیقت کو قبول کرنے پر مجبور کر دینے والے ہیں۔
عموماً تمام سائنس بالواسطہ ثبوتوں پر انحصار کرتی ہے۔ مثال کے طور پر طبیعیات دان ذیلی جوہری ذرّات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کر سکتے لہٰذا وہ ان کی موجودگی کی تصدیق کے لئے ان کے غماز راستوں کو دیکھتے ہیں جو ذرّات ابر خانے میں اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں۔ براہ راست ثبوتوں کے عدم مشاہدے کی وجہ سے طبیعیاتی نتائج کم قطعی نہیں ہو جاتے۔
2۔ قدرتی چناؤ کی بنیاد تدویری دلیل ہے یعنی کہ جو باقی رہ گئے وہ موزوں ہیں اور جو موزوں ہیں وہ باقی رہ گئے ۔
"بقائے اصلح" قدرتی چناؤ کو بیان کرنے کا ایک متنازعہ طریقہ ہے، تاہم مزید تیکنیکی توضیح بقا کی مختلف شرح اور تولیدگی کو بیان کرتی ہے۔ یعنی بجائے انواع کو موزوں اور غیر موزوں جماعت میں بیان کرنے کے اس طرح سے ان کو بیان کر سکتے ہیں کہ مخصوص حالات میں وہ کتنے بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ ایک تیز رفتار نسل بڑھانے والی چھوٹی چونچ والی سنہری چڑیا کے جوڑے اور ایک سست رفتار نسل بڑھانے والی سنہری چڑیا کے جوڑے کو ایک ایسے جزیرے پر چھوڑیں جو دانے دنکے سے بھرا ہوا ہو۔ چند ہی نسلوں میں تیز رفتار سے نسل بڑھانے والی سنہری چڑیا خوراک کے زیادہ وسائل پر قبضہ کر لیں گی۔ اگر بڑی چونچ والی سنہری چڑیا دانے کو آسانی کے ساتھ توڑ سکتی ہیں تاہم اس بات کا بھی فائدہ چھوٹی چونچ والی چڑیا کو ہی ہوگا۔ گالاپگوس جزیرے پر ہونے والی تحقیق میں پرنسٹن یونیورسٹی کے پیٹر آر جی گرانٹ نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح کی آبادی میں اتار چڑھاؤ بے لگام ہوتا ہے [ان کا مضمون "قدرتی چناؤ اور ڈارون کی سنہری چڑیاں"؛ سائنٹفک امریکن ، اکتوبر ١٩٩٩ء میں دیکھا جا سکتا ہے ]۔
خاکہ 3 "بقائے اصلح" قدرتی چناؤ کو بیان کرنے کا ایک متنازعہ طریقہ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ موزونیت سے مطابقت حاصل کرنے کو بقا کے بغیر بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ بڑی چونچ والی بیچ کو توڑنے کے لئے زیادہ مطابقت پذیر تھیں اس بات سے قطع نظر کہ ان کی یہ خصوصیت مخصوص حالات میں ان کو بچانے کے کسی خاص کام آ سکی۔
3۔ ارتقا غیر سائنسی ہے کیونکہ یہ قابل جانچ یا قابل تحریف نہیں ہے۔ یہ ایسے حالات کے بارے میں بات کرتا ہے جس کا مشاہدہ نہیں کیا گیا اور اس کو کبھی بھی دہرایا نہیں جا سکتا۔
ارتقاء کی اس طرح سے برخاستگی اس اہم اختلاف کو نظر انداز کر دیتی ہے جو اس میدان کو کم از کم دو وسیع علاقوں میں بانٹتا ہے۔ اصغری ارتقاء اور اکبری ارتقاء۔ اصغری ارتقاء انواع کے درمیان ہونے والی تبدیلیوں کو گزرے وقت میں دیکھتا ہے – وہ تبدیلیاں جو آغاز انواع کا پیش خیمہ ہوتی ہیں ، نئی انواع کا ماخذ۔ اکبری ارتقاء اس کا مطالعہ کرتا ہے کہ کس انواع کی سطح کے اوپر کس طرح سے تقسیمی جماعت تبدیل ہوتی ہے۔ اس کے شواہد اکثر اوقات رکازی نامچوں اور ڈی این اے کے تقابل سے حاصل ہوتے ہیں جو مختلف جانداروں کے آپس میں باہمی نسبت کو جاننے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔
خاکہ 4 ۔ اصغری ارتقاء انواع کے درمیان ہونے والی تبدیلیوں کو گزرے وقت میں دیکھتا ہے جبکہ اکبری ارتقاء انواع کی سطح کے اوپر تقسیمی جماعت کی تبدیلی کا مطالعہ کرتا ہے۔
ان دنوں اکثر تخلیقی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصغری ارتقاء تجربہ گاہ ( جیسا کہ خلیہ، پودوں اور پھل مکھی کی تحقیقات میں ) میں کی گئی جانچوں میں اور میدان (جیسا کہ گرانٹ کی گالاپگوس سنہری چڑیوں کی ارتقائی عمل سے گزرتی چونچ کی تحقیق میں ) ثابت ہو چکے ہیں۔ قدرتی چناؤ اور دوسرے طریقے - جیسا کہ لوئی جسمیہ تبدیلی، ہم زیستی اور دوغلیت - وقت کے ساتھ آبادی پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔
اکبری ارتقاء کی تحقیق کی تاریخی نوعیت میں براہ راست مشاہدات کے بجائے رکازیات اور ڈی این اے سے استنباط کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود تاریخی سائنس (بشمول فلکیات، ارضیات اور آثار قدیمہ کا علم، اور ارتقائی حیاتیات) میں قیاسات کو اس طرح سے جانچا جا سکتا ہے کہ آیا وہ طبعی ثبوتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور آیا کہ وہ مستقبل کی دریافتوں کے لئے قابل تصدیق اندازوں تک لے جاتے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر ارتقاء کہتا ہے کہ انسانوں کے اولین آباؤ اجداد (لگ بھگ پچاس لاکھ برس پرانے) اور جدید انسان (لگ بھگ ایک لاکھ برس پہلے) کے ظہور کے درمیان انسان نما جانور جیسی خصوصیات والے جاندار ملنے چاہئیں جس میں بتدریج بندروں کی کم اور انسانوں جیسی زیادہ خاصیت ہوں، حقیقت میں رکازی نامچہ یہی چیز بیان کرتا ہے۔ تاہم کسی کو جدید انسان کے رکاز جراسی دور (چودہ کروڑ چالیس لاکھ برس پہلے) کے طبقات میں پیوستہ نہ تو ملتے ہیں نہ ہی ملنے چاہئیں۔ ارتقائی حیاتیات معمولات میں اس سے کہیں زیادہ بہتر اندازے قائم کر سکتی ہے اور محققین مسلسل اس کی جانچ کر رہے ہیں۔
ارتقاء کو دوسرے طریقوں سے بھی رد کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم مردہ مادّے سے کسی ایک پیچیدہ حیات کی خود سے بڑھوتری کا ثبوت دیکھ لیں تو ہو سکتا ہے کہ چند مخلوقات جن کو رکازی نامچوں میں دیکھا گیا ہے اس طریقے سے پیدا ہوئی ہوں گی۔ اگر فوق ذہین خلائی مخلوق نمودار ہو جائے اور زمین پر حیات کی تخلیق کا دعویٰ کرے (بلکہ کسی ایک مخصوص نوع کا بھی)، تو خالص ارتقائی توضیح بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو جائے گی۔ تاہم ابھی تک کسی نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا۔
یہ بات غور طلب ہے کہ قابل تکذیب کا تصوّر بطور سائنس کی تعریفی خاصیت کے فلسفی کارل پوپر نے ١٩٣٠ء میں پیش کیا۔ حال ہی میں اس کے تصوّر کی مزید توسیع نے اس کے اصول کی تنگ تشریح کو پھیلایا خاص طور پر اس لئے کہ یہ سائنسی جدوجہد کی کافی ساری شاخوں کو کم کر دیتی ہے۔
4۔ بتدریج سائنس دان ارتقاء کی سچائی پر متشکک ہو رہے ہیں۔
کوئی ثبوت ایسا نہیں ہے جو اس تجویز کو پیش کرے کہ ارتقاء طرفداری کو کھو رہا ہے۔ کوئی بھی ہم جماعتی تجزیہ کا حیاتیاتی جریدہ اٹھا کر دیکھ لیں اور آپ کو اس میں ایسے مضامین مل جائیں گے جو ارتقاء کے مطالعہ کی حمایت کریں گے یا پھر ارتقاء کو بنیادی تصوّر کے بیان کریں گے۔
اس کے برخلاف سنجیدہ سائنسی اشاعت جو ارتقاء کے خلاف ہوں ناپید ہیں۔ ١٩٩٠ء کے عشرے کے وسط میں یونیورسٹی آف واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے جارج ڈبلیو گلکرسٹ نے بنیادی ادب کے ہزار ہا جریدوں کا جائزہ لیا جس میں اس کی تلاش ذہین صورت گری یا تخلیقی سائنس تھی۔ سینکڑوں ہزار ہا جریدوں میں اسے ایک بھی ایسا نہیں ملا۔ گزشتہ دو برسوں کے درمیان ساؤتھ ایسٹ لوزیانا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی باربرا فوریسٹ اورکیس ویسٹرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے لارنس ایم کراس بھی اس قسم کے جائزے میں خالی ہاتھ ہی رہے۔
تخلیقی بدلے میں جواب دیتے ہیں کہ تنگ نظر سائنسی لوگ ان کے ثبوتوں کو رد کرتے ہیں۔ اس کے باوجود نیچر ، سائنس اور دوسرے اہم جریدوں کے مدیروں کے مطابق کچھ ضد ارتقاء سے متعلق مقالاجات بھی انھیں بھیجے گئے۔ کچھ ضد ارتقاء مصنفین نے اپنے مضامین کو سنجیدہ جرائد میں بھی شایع کروایا۔ تاہم ان مقالاجات میں شاذونادر ہی ارتقاء پر کوئی براہ راست حملہ کیا گیا یا تخلیق سے متعلق اپنے دلائل دیئے گئے؛ اس کے بجائے انہوں نے اپنی پوری کوشش ارتقاء سے متعلق کچھ مسائل کو ناقابل حل اور مشکل (جس کے بارے میں کوئی انکاری نہیں ہے) ثابت کرنے میں لگا دی۔ مختصراً تخلیقیوں نے سائنسی دنیا کو کوئی ایسے اچھے دلائل نہیں پیش کئے جس سے وہ انھیں سنجیدہ لیتے۔
5۔ارتقائی حیاتیات دانوں کے درمیان بھی اختلاف موجود ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کتنی کمزور سائنس ارتقاء کی بنیاد ہے۔
ارتقائی حیاتیات دان مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث کرتے ہیں، آغاز انواع کیسے شروع ہوا، ارتقائی تبدیلیوں کی شرح، پرندوں اور ڈائنوسارس کے آباؤ اجداد میں تعلق، آیا کہ نینڈرتھال جدید انسان ہی کی کوئی قسم تھے، اور اسی طرح کے دوسرے ۔ یہ اختلافات بعینہ ایسے ہیں جیسے کہ کسی بھی دوسری سائنس کی شاخوں کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ باوجود اس کے ارتقاء کی قبولیت بطور امر حقیقی اور رہنما اصول حیاتیات میں آفاقی ہیں۔
خاکہ 5 ارتقائی حیاتیات دان مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث کرتے ہیں جس میں یہ بات بھی شامل ہیں کہ آیا نینڈرتھال جدید انسان ہی کی کوئی قسم تھے یا نہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر ارتقاء کے مخالف اپنی حق میں ثبوت پیش کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے بد دیانت تخلیقی اکثر اوقات سائنس دانوں کے تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ بحث کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکیں۔ کوئی بھی جو ماہر رکازیات ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اسٹیفن جے گولڈ کے کام کے بارے میں جانتا ہوں اسے معلوم ہوگا کہ اعتدال منقطع کے نمونے کے شریک مصنف کے علاوہ ، گولڈارتقاء کا دفاع کرنے والے سب سے خوش گفتار اور واضح کلام کرنے والے ہیں۔ (اعتدال منقطع رکازی نامچوں میں موجود نمونے کے بارے میں بتاتا ہے کہ اکثر ارتقائی تبدیلیاں مختصر ارضیاتی ادوار میں ہوئیں – جو اس مختصر دورانئے کے باوجود سینکڑوں نسلوں پر محیط ہو سکتی ہیں۔) تخلیقی گولڈ کے ضخیم نثری کام میں سے وہ جملے نکالنے میں خوش ہوتے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ارتقاء کے اوپر متشکک ہے، اور وہ اعتدال منقطع کو ایسے پیش کرتے ہیں جسے یہ نئی انواع کو راتوں رات پیدا کرتا ہے یا رینگنے والے جانور کے انڈوں سے پرندے پیدا ہوتے ہیں۔
جب بھی کسی سائنسی صاحب علم کے قول کا سامنا کریں جو ارتقاء پر سوال اٹھاتا نظر آئی تو کوشش کریں کہ سیاق و سباق کو بھی حاصل کرکے اس کے تناظر میں اس قول کو پڑھیں۔ تقریباً ثابت طور پر ارتقاء پر حملہ ایک دھوکہ دہی ثابت ہوگا۔
آخری تدوین: