سیدہ سارا غزل
معطل
نظر آلودہء گردِ سفر ہے
مگر سینے میں دل تابندہ تر ہے
مجھے رسوائیوں سے ڈھانپ دینا
مری آنکھوں کو عریانی کا ڈر ہے
پڑی ہوں آئینہ خانہء دل میں
ہر اک چہرہ مرا پیشِ نظر ہے
مری راتوں کو مہکائے تو جانوں
گُلِ خورشید کی خوشبو سحر ہے
یہی ذوقِ ہم آغوشی ہے جس سے
سمندر کیلئے قطرہ گہر ہے
ابد اک ذرہء دشتِ جدائی
دلِ ناداں تجھے جانا کدھر ہے
بڑی حیرت سے تکتی ہیں فضائیں
یہ آوارہ زمیں بے بال و پر ہے
جلی کس کیلئے شمعِ زمانہ
جو لپٹا ہے اسے کیسا شرر ہے
تحیرّ کا فسوں ٹوٹے تو دیکھیں
نظر کا آئینہ کیوں بے بصر ہے
جو دریا کی طرح کھینچے ہے دامن
غزل اپنا دلِ در یوزہ گر ہے
اُمِ سالار سارا غزل ہاشمی