شفیق خلش :::::نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے:::::Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


غزل
نظر سے پل بھر اُتر وہ جائے تو نیند آئے
شبِ قیامت نہ آزمائے تو نیند آئے

چّھٹیں جو سر سے دُکھوں کے سائے تو نیند آئے
خبر کہِیں سے جو اُن کی آئے تو نیند آئے

دماغ و دِل کو کبھی میسّر سکون ہو جب !
جُدائی اُس کی نہ کُچھ ستائے تو نیند آئے

خیال اُس کا، ہو کروَٹوں کا سبب اگرچہ
اُمید ملنے کی جب بھی لائے تو نیند آئے

خیال بد پر کسی عمل کا اثر کہاں ہو
نہ دِل کو جب کچھ خلش ستائے تو نیند آئے

شفیق خلشؔ

 
Top