کاشفی
محفلین
غزل
(ساغر نظامی)
نظر میں، روح میں، دل میں سمائے جاتے ہیں
ہر ایک عالمِ امکاں پہ چھائے جاتے ہیں
ہر اک قدم کو وہ منزل بنائے جاتے ہیں
تعیّنات کی وسعت بڑھائے جاتے ہیں
نگاہ مست ہے اور مُسکرائے جاتے ہیں
دو آتشہ مجھے بھر کر پلائے جاتے ہیں
نشانِ بتکدہء دل مٹائے جاتے ہیں
وہ اپنے کعبہء دیریں کو ڈھائے جاتے ہیں
جو اُٹھ سکے تھے نہ خود حُسن کے اُٹھائے سے
وہ پردہ ہائے دوئی اب اُٹھائے جاتے ہیں
جو گرسکے تھے نہ خود عشق کے گرائے سے
وہ سب حجابِ محبت گرائے جاتے ہیں
چھپا چھپا کے جنہیں مصلحت نے رکھا تھا
وہ جلوے اب سرِ محفل دکھائے جاتے ہیں
سنبھل کر اے نگہِ شوق بزمِ دوست ہے یہ
یہاں خرابِ نظر، آزمائے جاتے ہیں
نہ پوچھ، کارگہِ عشق کا طلسم نہ پوچھ
قدم قدم پہ تماشے دکھائے جاتے ہیں
پتہ نہیں کہیں ان کا اور ان کے دیوانے
تصورات کی محفل سجائے جاتے ہیں
کہاں کی لغزشِ پا، اب یہ حال ہے ساقی
کہ سر سے تا بقدم، ڈگمگائے جاتے ہیں
یہ میکدہ ہے، ترا مدرسہ نہیں واعظ
یہاں شراب سے انساں بنائے جاتے ہیں
اُٹھا رہا ہوں میں گرمیِ شوق بن کے نقاب
وہ اپنے سر کو مسلسل جھکائے جاتے ہیں
جگر بھی شق ہے یہاں شدّتِ تجلّی سے
وہ دیکھتے ہیں مگر مُسکرائے جاتے ہیں
حجابِ حُسن پھر اس پر حجابِ شرم و شباب
جو پردے اُٹھتے ہیں گویا گرائے جاتے ہیں
یہ قصرِ حُسن ہے آتشکدہ محبت کا
بجائے شمع یہاں، دل جلائے جاتے ہیں
تمام عالمِ محسوس کانپ اُٹھتا ہے
جب آنکھ سے کہیں آنسو بہائے جاتے ہیں
ہمارا حال تو دیکھا، ہمارا ظرف بھی دیکھ
نگاہ اُٹھتی نہیں، غم اُٹھائے جاتے ہیں
تلاش لازمہء عاشقی نہیں ساغر
نہ ڈھونڈنے پہ بھی وہ ہم میں پائے جاتے ہیں
(ساغر نظامی)
نظر میں، روح میں، دل میں سمائے جاتے ہیں
ہر ایک عالمِ امکاں پہ چھائے جاتے ہیں
ہر اک قدم کو وہ منزل بنائے جاتے ہیں
تعیّنات کی وسعت بڑھائے جاتے ہیں
نگاہ مست ہے اور مُسکرائے جاتے ہیں
دو آتشہ مجھے بھر کر پلائے جاتے ہیں
نشانِ بتکدہء دل مٹائے جاتے ہیں
وہ اپنے کعبہء دیریں کو ڈھائے جاتے ہیں
جو اُٹھ سکے تھے نہ خود حُسن کے اُٹھائے سے
وہ پردہ ہائے دوئی اب اُٹھائے جاتے ہیں
جو گرسکے تھے نہ خود عشق کے گرائے سے
وہ سب حجابِ محبت گرائے جاتے ہیں
چھپا چھپا کے جنہیں مصلحت نے رکھا تھا
وہ جلوے اب سرِ محفل دکھائے جاتے ہیں
سنبھل کر اے نگہِ شوق بزمِ دوست ہے یہ
یہاں خرابِ نظر، آزمائے جاتے ہیں
نہ پوچھ، کارگہِ عشق کا طلسم نہ پوچھ
قدم قدم پہ تماشے دکھائے جاتے ہیں
پتہ نہیں کہیں ان کا اور ان کے دیوانے
تصورات کی محفل سجائے جاتے ہیں
کہاں کی لغزشِ پا، اب یہ حال ہے ساقی
کہ سر سے تا بقدم، ڈگمگائے جاتے ہیں
یہ میکدہ ہے، ترا مدرسہ نہیں واعظ
یہاں شراب سے انساں بنائے جاتے ہیں
اُٹھا رہا ہوں میں گرمیِ شوق بن کے نقاب
وہ اپنے سر کو مسلسل جھکائے جاتے ہیں
جگر بھی شق ہے یہاں شدّتِ تجلّی سے
وہ دیکھتے ہیں مگر مُسکرائے جاتے ہیں
حجابِ حُسن پھر اس پر حجابِ شرم و شباب
جو پردے اُٹھتے ہیں گویا گرائے جاتے ہیں
یہ قصرِ حُسن ہے آتشکدہ محبت کا
بجائے شمع یہاں، دل جلائے جاتے ہیں
تمام عالمِ محسوس کانپ اُٹھتا ہے
جب آنکھ سے کہیں آنسو بہائے جاتے ہیں
ہمارا حال تو دیکھا، ہمارا ظرف بھی دیکھ
نگاہ اُٹھتی نہیں، غم اُٹھائے جاتے ہیں
تلاش لازمہء عاشقی نہیں ساغر
نہ ڈھونڈنے پہ بھی وہ ہم میں پائے جاتے ہیں