نظر کے سامنے صحرائے بے پناہی ہے

علی وقار

محفلین
نظر کے سامنے صحرائے بے پناہی ہے
قریب و دُور مرے بخت کی سیاہی ہے

اُفق کے پار کبھی دیکھنے نہیں دیتی
شریک راہ اُمیدوں کی کم نگاہی ہے

بھرا پرا تھا گھر اُس کا خوشی کے میلے سے
یہ کیا ہوا کہ وہ اب راستہ کا راہی ہے

اُکھڑتے قدموں کی آواز مجھ سے کہتی ہے
شکست ہی نہیں یہ دائمی تباہی ہے

وہ ذہن ہو تو حریفوں کی چال بھی سیکھیں
ہمارے پاس فقط عذر بے گناہی ہے

غزل: ارمان نجمی
 
Top