عین عین
لائبریرین
ایک دوست کے بیٹے کی سال گرہ پر لکھی ہے
اساتذہ اصلاح کے ساتھ عنوان بھی دیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری جاں حق تو نہیں ہے یہ تمھارا، لیکن
چشم پوشی میں حقائق سے نہیں کر سکتا۔۔
میں تجھے حال کے چند ایک کھلونے دے کر
تیرے فردا میں کوئی زہر نہیں بھر سکتا۔۔
جی تو کرتا ہے لبوں کو تیرے یاقوت کہوں
دل تو کہتا ہے کہ آنکھوں کو ستارہ لکھوں
لوگ ناداں ہیں فقط چاند سا کہتے ہیں تجھے
میں جو لکھوں تو تجھے چاند سے پیارا لکھوں
آج کے دن کا تقاضا بھی یہی ہے مجھ سے
ایک قطرہ بھی اگر ہو تو میں دریا لکھوں
اے مرے روحِ نگارش! مجھے یوسف کی قسم
جی میں آتا ہے تجھے رشکِ زلیخا لکھوں
ترے بالوں کا یہ ریشم، تیرے عارض کی شفق
کسی بے ساختہ خواہش کو جنم دیتی ہے۔۔۔۔
تجھے بھر لینے کا بانہوں کو بہت شوق سہی
میری فطرت یہ اجازت ہی تو کم دیتی ہے۔۔۔
تُو وہ کم سن ہے کہ خود اپنی خبر تجھ کو نہیں
تُو کہاں جان سکے شورشِ آلام ہے کیا؟۔۔۔۔۔
تو ابھی کیسے سمجھ سکتا ہے ہستی کا مزاج
تجھے معلوم کہاں گردشِ ایام ہے کیا۔۔۔۔۔
زندگی زخمِ بَلاخیز ہے اور اس کا علاج
نہ کوئی دستِ مہرباں ہے نہ مرہم کوئی
آج ہو جائیں گے خوشیوں میں بہرحال شریک
کل یہی لوگ نہ بانٹیں گے ترا غم کوئی
زندگی یوں تو بہت جاذب و رنگیں ہے مگر
زندگی میں مری جاں ایسے بھی موڑ آتے ہیں
جب ہمیں چاہنے والے یہ مہرباں چہرے
کسی یوسف کی طرح چاہ میں چھوڑ آتے ہیں
مرے محبوب خفا مت ہو مری باتوں سے
جو حقیقت ہو اسے مان لیا کرتے ہیں۔۔۔۔
زندگی زخم سہی، زخمِ بَلاخیز سہی
زندگی ہے تو بہرحال جیا کرتے ہیں۔۔
اساتذہ اصلاح کے ساتھ عنوان بھی دیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری جاں حق تو نہیں ہے یہ تمھارا، لیکن
چشم پوشی میں حقائق سے نہیں کر سکتا۔۔
میں تجھے حال کے چند ایک کھلونے دے کر
تیرے فردا میں کوئی زہر نہیں بھر سکتا۔۔
جی تو کرتا ہے لبوں کو تیرے یاقوت کہوں
دل تو کہتا ہے کہ آنکھوں کو ستارہ لکھوں
لوگ ناداں ہیں فقط چاند سا کہتے ہیں تجھے
میں جو لکھوں تو تجھے چاند سے پیارا لکھوں
آج کے دن کا تقاضا بھی یہی ہے مجھ سے
ایک قطرہ بھی اگر ہو تو میں دریا لکھوں
اے مرے روحِ نگارش! مجھے یوسف کی قسم
جی میں آتا ہے تجھے رشکِ زلیخا لکھوں
ترے بالوں کا یہ ریشم، تیرے عارض کی شفق
کسی بے ساختہ خواہش کو جنم دیتی ہے۔۔۔۔
تجھے بھر لینے کا بانہوں کو بہت شوق سہی
میری فطرت یہ اجازت ہی تو کم دیتی ہے۔۔۔
تُو وہ کم سن ہے کہ خود اپنی خبر تجھ کو نہیں
تُو کہاں جان سکے شورشِ آلام ہے کیا؟۔۔۔۔۔
تو ابھی کیسے سمجھ سکتا ہے ہستی کا مزاج
تجھے معلوم کہاں گردشِ ایام ہے کیا۔۔۔۔۔
زندگی زخمِ بَلاخیز ہے اور اس کا علاج
نہ کوئی دستِ مہرباں ہے نہ مرہم کوئی
آج ہو جائیں گے خوشیوں میں بہرحال شریک
کل یہی لوگ نہ بانٹیں گے ترا غم کوئی
زندگی یوں تو بہت جاذب و رنگیں ہے مگر
زندگی میں مری جاں ایسے بھی موڑ آتے ہیں
جب ہمیں چاہنے والے یہ مہرباں چہرے
کسی یوسف کی طرح چاہ میں چھوڑ آتے ہیں
مرے محبوب خفا مت ہو مری باتوں سے
جو حقیقت ہو اسے مان لیا کرتے ہیں۔۔۔۔
زندگی زخم سہی، زخمِ بَلاخیز سہی
زندگی ہے تو بہرحال جیا کرتے ہیں۔۔