نظم۔۔۔۔ عارف عزیز

عین عین

لائبریرین
ایک دوست کے بیٹے کی سال گرہ پر لکھی ہے
اساتذہ اصلاح کے ساتھ عنوان بھی دیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مری جاں‌ حق تو نہیں‌ ہے یہ تمھارا، لیکن
چشم پوشی میں‌ حقائق سے نہیں کر سکتا۔۔
میں‌ تجھے حال کے چند ایک کھلونے دے کر
تیرے فردا میں‌ کوئی زہر نہیں‌ بھر سکتا۔۔

جی تو کرتا ہے لبوں‌ کو تیرے یاقوت کہوں
دل تو کہتا ہے کہ آنکھوں کو ستارہ لکھوں
لوگ ناداں ہیں‌ فقط چاند سا کہتے ہیں تجھے
میں‌ جو لکھوں‌ تو تجھے چاند سے پیارا لکھوں
آج کے دن کا تقاضا بھی یہی ہے مجھ سے
ایک قطرہ بھی اگر ہو تو میں دریا لکھوں
اے مرے روحِ نگارش! مجھے یوسف کی قسم
جی میں‌ آتا ہے تجھے رشکِ زلیخا لکھوں

ترے بالوں‌ کا یہ ریشم، تیرے عارض‌ کی شفق
کسی بے ساختہ خواہش کو جنم دیتی ہے۔۔۔۔
تجھے بھر لینے کا بانہوں‌ کو بہت شوق سہی
میری فطرت یہ اجازت ہی تو کم دیتی ہے۔۔۔

تُو وہ کم سن ہے کہ خود اپنی خبر تجھ کو نہیں
تُو کہاں جان سکے شورشِ آلام ہے کیا؟۔۔۔۔۔
تو ابھی کیسے سمجھ سکتا ہے ہستی کا مزاج
تجھے معلوم کہاں گردشِ ایام ہے کیا۔۔۔۔۔

زندگی زخمِ بَلاخیز ہے اور اس کا علاج
نہ کوئی دستِ مہرباں‌ ہے نہ مرہم کوئی
آج ہو جائیں‌ گے خوشیوں‌ میں‌ بہرحال شریک
کل یہی لوگ نہ بانٹیں‌ گے ترا غم کوئی

زندگی یوں تو بہت جاذب و رنگیں ہے مگر
زندگی میں‌ مری جاں ایسے بھی موڑ آتے ہیں
جب ہمیں‌ چاہنے والے یہ مہرباں‌ چہرے
کسی یوسف کی طرح‌ چاہ میں‌ چھوڑ آتے ہیں

مرے محبوب خفا مت ہو مری باتوں‌ سے
جو حقیقت ہو اسے مان لیا کرتے ہیں۔۔۔۔
زندگی زخم سہی، زخمِ بَلاخیز سہی
زندگی ہے تو بہرحال جیا کرتے ہیں۔۔
 
عارف بھائی کیا زبردست نظم کہی ہے۔ بہت خوب۔ لا جواب!

ابھی جب تک چاچو اور وارث بھائی کی نگاہ نہیں پڑ جاتی میں بھی تفریح تفریح میں چند مفت کے مشورے دے دوں۔

مری جاں‌ حق تو نہیں‌ ہے یہ تمھارا، لیکن

یہاں تمھارا کے بجائے تیرا ہوتا تو آنے والے مصرعوں میں مستعمل تجھے اور تیرے جیسے الفاظ کا ہم زلف بن جاتا۔ لیکن اس کے لئے اس مصرعے میں تھوڑی تبدیلی درکار ہوگی اس لئے یوں ہی سہی۔

میں‌ تجھے حال کے چند ایک کھلونے دے کر

میں لکھتا تو چند ایک کے بجائے دو چار کھلونے لکھتا۔ اللہ جانے میں ایسا کیوں لکتا مجھے خود نہیں پتا۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ شاید اس طرح شعر میں ٹھہراؤ سا نہیں آتا۔

بس بس بھائی اس سے زیاد کچھ کہنے کی میری مجال نہیں یوں کہیئے کہ پر جلتے ہیں۔ ویسے بھی عرصہ ہوا بے پر کیاں اڑائے۔ خیر آج تو چاچو اور وارث بھائی سے میری پٹائی پکی ہے۔ سوچتا ہوں بھاگ کر بستر میں گھس جاؤں۔ کل ٹیسٹ بھی ہے۔
 

عین عین

لائبریرین
عارف بھائی کیا زبردست نظم کہی ہے۔ بہت خوب۔ لا جواب!

ابھی جب تک چاچو اور وارث بھائی کی نگاہ نہیں پڑ جاتی میں بھی تفریح تفریح میں چند مفت کے مشورے دے دوں۔

مری جاں‌ حق تو نہیں‌ ہے یہ تمھارا، لیکن

یہاں تمھارا کے بجائے تیرا ہوتا تو آنے والے مصرعوں میں مستعمل تجھے اور تیرے جیسے الفاظ کا ہم زلف بن جاتا۔ لیکن اس کے لئے اس مصرعے میں تھوڑی تبدیلی درکار ہوگی اس لئے یوں ہی سہی۔

میں‌ تجھے حال کے چند ایک کھلونے دے کر

میں لکھتا تو چند ایک کے بجائے دو چار کھلونے لکھتا۔ اللہ جانے میں ایسا کیوں لکتا مجھے خود نہیں پتا۔ ویسے مجھے لگتا ہے کہ شاید اس طرح شعر میں ٹھہراؤ سا نہیں آتا۔

بس بس بھائی اس سے زیاد کچھ کہنے کی میری مجال نہیں یوں کہیئے کہ پر جلتے ہیں۔ ویسے بھی عرصہ ہوا بے پر کیاں اڑائے۔ خیر آج تو چاچو اور وارث بھائی سے میری پٹائی پکی ہے۔ سوچتا ہوں بھاگ کر بستر میں گھس جاؤں۔ کل ٹیسٹ بھی ہے۔

بہت شکریہ آپ کی عنایت ہے۔ مجھے خود بھی تجھے اور تمھارے کا مسئلہ اٹکا تھا مگر درست نہیں‌ کر سکا۔ کوئی تبدیلی اساتذہ کر دیں تو کام بن جائے۔
اور دوچار کھلونے والی تبدیلی مجھے پسند آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر بھی کوئی اگر سند مہیا کر دے تو مین‌ بخوشی قبول کر لوں‌ گا ۔ اگر آپ ہی اصرار کر کے کہتے تو قبول تھا مگر خود آپ نے بھی اس پر کوئی زور نہین‌ دیا۔ ۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اساتذہ۔۔۔ اصلاح۔۔۔۔ ایسے الفاظ مجھ کو نہیں معلوم۔
نظم بہت اچھی ہے، عرصے کے بعد ایک پابند نظم اور اچھی نظم پڑھنے کو ملی۔ سعود میاں ماشاء اللہ بڑے سعادت مند ہیں جو ڈرتے ڈرتے کچھ مشورہ دیتے ہیں۔ میں نے اس قسم کی پوسٹس کے لئے مشورہ سخن کی اصطلاح ہی تجویز کی تھی جو کہ مستند حضرات بھی اپنی غزل/نظم پر حاصل کر سکیں۔ ہاں، سعود کا مشورہ درست ہے۔
وارث۔فاتح۔ ذرا ایک اشکال دور کر دیں۔ مہرباں کا تلفظ۔۔
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت (بسکوت ہا و را)
کے علاوہ یہاں مہرباں (م اور ہ بکسرہ) کے استعمال کی کوئی سند ہے؟
 
بس عارف بھائی زور زبردستی کا کیا ہے۔ شاعری میرا میدان ہی نہیں کبھی تک بندیاں کیا کرتا تھا تو اس میں میرا اپنا قانون چلتا تھا اس لئے جہاں تک ہاتھ پہونچ جائے جائز کر لیتا تھا۔ ویسے شاعری میں کئی ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں اصلاح کا نام دیا ہی نہیں جا سکتا۔ ذاتی پسند کی بات ہوتی ہے۔ ورنہ سوال اٹھانے والے تو دو چار کھلونوں پر بلکہ سرے سے کھلونوں پر ہی اعتراض جڑ سکتے ہیں کہ جناب یہ کھلونے دینے کا زہر بھرنے سے کیا تال میل۔ پر بات وہی ہے کہ کون کتنی دور جا کر مفہوم کی کوڑی لاتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اساتذہ۔۔۔ اصلاح۔۔۔۔ ایسے الفاظ مجھ کو نہیں معلوم۔
نظم بہت اچھی ہے، عرصے کے بعد ایک پابند نظم اور اچھی نظم پڑھنے کو ملی۔ سعود میاں ماشاء اللہ بڑے سعادت مند ہیں جو ڈرتے ڈرتے کچھ مشورہ دیتے ہیں۔ میں نے اس قسم کی پوسٹس کے لئے مشورہ سخن کی اصطلاح ہی تجویز کی تھی جو کہ مستند حضرات بھی اپنی غزل/نظم پر حاصل کر سکیں۔ ہاں، سعود کا مشورہ درست ہے۔
وارث۔فاتح۔ ذرا ایک اشکال دور کر دیں۔ مہرباں کا تلفظ۔۔
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت (بسکوت ہا و را)
کے علاوہ یہاں مہرباں (م اور ہ بکسرہ) کے استعمال کی کوئی سند ہے؟

اعجاز صاحب مہرباں کے متعلق آپ نے صحیح لکھا ہے، میرے علم میں اسکا صرف ایک ہی تلفظ ہے یعنی مہرباں، ہ کے سکون کے ساتھ بروزنِ فاعلن یا مہربان کی صورت میں فاعلات۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
ایک دوست کے بیٹے کی سال گرہ پر لکھی ہے
اساتذہ اصلاح کے ساتھ عنوان بھی دیجیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مری جاں‌ حق تو نہیں‌ ہے یہ تمھارا، لیکن
چشم پوشی میں‌ حقائق سے نہیں کر سکتا۔۔
میں‌ تجھے حال کے چند ایک کھلونے دے کر
تیرے فردا میں‌ کوئی زہر نہیں‌ بھر سکتا۔۔

جی تو کرتا ہے لبوں‌ کو تیرے یاقوت کہوں
دل تو کہتا ہے کہ آنکھوں کو ستارہ لکھوں
لوگ ناداں ہیں‌ فقط چاند سا کہتے ہیں تجھے
میں‌ جو لکھوں‌ تو تجھے چاند سے پیارا لکھوں
آج کے دن کا تقاضا بھی یہی ہے مجھ سے
ایک قطرہ بھی اگر ہو تو میں دریا لکھوں
اے مرے روحِ نگارش! مجھے یوسف کی قسم
جی میں‌ آتا ہے تجھے رشکِ زلیخا لکھوں

ترے بالوں‌ کا یہ ریشم، تیرے عارض‌ کی شفق
کسی بے ساختہ خواہش کو جنم دیتی ہے۔۔۔۔
تجھے بھر لینے کا بانہوں‌ کو بہت شوق سہی
میری فطرت یہ اجازت ہی تو کم دیتی ہے۔۔۔

تُو وہ کم سن ہے کہ خود اپنی خبر تجھ کو نہیں
تُو کہاں جان سکے شورشِ آلام ہے کیا؟۔۔۔۔۔
تو ابھی کیسے سمجھ سکتا ہے ہستی کا مزاج
تجھے معلوم کہاں گردشِ ایام ہے کیا۔۔۔۔۔

زندگی زخمِ بَلاخیز ہے اور اس کا علاج
نہ کوئی دستِ مہرباں‌ ہے نہ مرہم کوئی
آج ہو جائیں‌ گے خوشیوں‌ میں‌ بہرحال شریک
کل یہی لوگ نہ بانٹیں‌ گے ترا غم کوئی

زندگی یوں تو بہت جاذب و رنگیں ہے مگر
زندگی میں‌ مری جاں ایسے بھی موڑ آتے ہیں
جب ہمیں‌ چاہنے والے یہ مہرباں‌ چہرے
کسی یوسف کی طرح‌ چاہ میں‌ چھوڑ آتے ہیں

مرے محبوب خفا مت ہو مری باتوں‌ سے
جو حقیقت ہو اسے مان لیا کرتے ہیں۔۔۔۔
زندگی زخم سہی، زخمِ بَلاخیز سہی
زندگی ہے تو بہرحال جیا کرتے ہیں۔۔
بہت خوب،، آپ نے تو کمال کر دیا عارف بھیا:dancing:
اور اتنی داد ملنے پہ تو آئسکریم ہونی چاہیے خاص طور پہ میرے لیے؟؟
 
آئس کریم کو زپ کرنے سے قبل اس فولدر میں چند آئس کیوبس ڈال دیجئے گا پھر ای میل کرتے ہوئے اس کی ایک کاربن کاپی مجھے بھی ارسال کر دیجئے گا۔
 

فاتح

لائبریرین
عارف صاحب! آپ کی یہ خوبصورت نظم پڑھ کر حقیقتاً لطف آ گیا۔ انتہائی خوبصورت نظم ہے۔
"مہر" کے تلفظ کے سلسلے میں اعجاز اور وارث صاحبان کا مویّد ہوں کہ اس کی ہ بہرحال ساکن ہے۔
 
Top