فرحت کیانی
لائبریرین
شاعرانہ گفت و شنید
26 جنوری 1912ء کے “زمیندار“ میں حضرت شفق عماد پوری کی نظم ذیل شائع ہُوئی:
اک دن یہ مجھ سے کہنے لگے ایک مہرباں
کیا آپ نکتہ سنج نہیں نکتہ داں نہیں
کیا آشنا مذاقِ سخن سے نہیں ہیں آپ
کیا آپ ذوقِ نظم سے رطب اللساں نہیں
صہبائے میر و بادۂ گلرنگِ درد سے
دو گھونٹ بھی نصیب مئے ارغواں نہیں
چلتا نہیں ہے بزم میں کیا دَورِ مصحفی
کیا اب وہ سلسلہ نہیں یا خانداں نہیں
اگلے سخنوروں کا نہیں مثل تو نہ ہو
کیا نام کو بھی شعر کا باقی نشاں نہیں
کوئی تو ہو گا طوطیٔ خوش لہجۂ چمن
مانا کہ داغِ بلبلِ ہندوستاں نہیں
زندہ کریں امیر خدائے سخن کا نام
ایسے خدا کے بندوں سے خالی جہاں نہیں
کی میں نے التماس مقامِ نیاز سے
بندہ نواز ناز کا موقع یہاں نہیں
کہتے ہیں شعر کس کو، سخن کس کا نام ہے
یہ امتیاز بھی مجھے ، اے مہرباں نہیں
جوہر شناس جس کو جواہر میں تول لیں
اب گوہرِ سخن کا وہ پلہ گراں نہیں
ہیں وہ خُم و قدح، نہ وہ پیمانہ و سبُو
وہ پیر مے فروش کی اونچی دُکاں نہیں
اس پر یہ لطف ہے کہ سخنور ہیں سینکڑوں
ایسا بھی کوئی شہر ہے شاعر جہاں نہیں؟
پُورب کے باکمالوں کی مٹی خراب ہے
دامن پہ ہے یہ داغ کہ اہلِ زباں نہیں
پچھم کے کچھ ہیں اہلِ زباں مستند مگر
سب قادر الکلام نہیں خوش بیاں نہیں
جو نکتہ داں ہیں واقفِ فن ماہرِ زباں
کچھ ان کے اتباعِ سخن میں زیاں نہیں
کالج کی ڈگریوں کی شفق کو ہو کیا امید
جب اس کی جیب میں سندِ امتحاں نہیں
حضرت شفق کے ارشاد پر میری طرف سے اشعار ذیل میں تبصرہ ہوا:
جو کچھ کہا جناب شفق نے ، خدا گواہ
اس میں ہمیں مجال چنیں و چناں نہیں
ہم کو سلیقہ گرچہ نہیں انتقاد کا
ہم گرچہ نکتہ رس نہیں اور نکتہ داں نہیں
لیکن اگر کسی کو ہو یہ ادعا کہ آج
ہندوستاں میں ایک بھی شیوا بیاں نہیں
ہم کو نہیں ہے اس کے عقیدے سے اتفاق
ہم اس کی ایسی ہاں میں ملا سکتے ہاں نہیں
اقبال ہی کو لیجئے گر چاہیے مثال
جو نکتہ چیں کے زعم میں اہلِ زباں نہیں
وہ کون سی زمین ہے دنیائے فکر میں
اس نے بنا دیا جسے آج آسماں نہیں
ملت کے دل کے واسطے سرمایۂ گداز
کیا اس کی دردناک نوا ریزیاں نہیں
کیا اس کی داستان کی جدت طرازیاں
صرفِ بقائے سلسلۂ پاستاں نہیں
اس کے کلام میں نہیں کیا سوزِ میر و درد
یا غالب و امیر کی رنگینیاں نہیں
دہلی و لکھنؤ پہ نہیں حصرِ شاعری
وہ خطہ کونسا ہے یہ دولت جہاں نہیں
مولانا ظفر علی خان
26 جنوری 1912ء کے “زمیندار“ میں حضرت شفق عماد پوری کی نظم ذیل شائع ہُوئی:
اک دن یہ مجھ سے کہنے لگے ایک مہرباں
کیا آپ نکتہ سنج نہیں نکتہ داں نہیں
کیا آشنا مذاقِ سخن سے نہیں ہیں آپ
کیا آپ ذوقِ نظم سے رطب اللساں نہیں
صہبائے میر و بادۂ گلرنگِ درد سے
دو گھونٹ بھی نصیب مئے ارغواں نہیں
چلتا نہیں ہے بزم میں کیا دَورِ مصحفی
کیا اب وہ سلسلہ نہیں یا خانداں نہیں
اگلے سخنوروں کا نہیں مثل تو نہ ہو
کیا نام کو بھی شعر کا باقی نشاں نہیں
کوئی تو ہو گا طوطیٔ خوش لہجۂ چمن
مانا کہ داغِ بلبلِ ہندوستاں نہیں
زندہ کریں امیر خدائے سخن کا نام
ایسے خدا کے بندوں سے خالی جہاں نہیں
کی میں نے التماس مقامِ نیاز سے
بندہ نواز ناز کا موقع یہاں نہیں
کہتے ہیں شعر کس کو، سخن کس کا نام ہے
یہ امتیاز بھی مجھے ، اے مہرباں نہیں
جوہر شناس جس کو جواہر میں تول لیں
اب گوہرِ سخن کا وہ پلہ گراں نہیں
ہیں وہ خُم و قدح، نہ وہ پیمانہ و سبُو
وہ پیر مے فروش کی اونچی دُکاں نہیں
اس پر یہ لطف ہے کہ سخنور ہیں سینکڑوں
ایسا بھی کوئی شہر ہے شاعر جہاں نہیں؟
پُورب کے باکمالوں کی مٹی خراب ہے
دامن پہ ہے یہ داغ کہ اہلِ زباں نہیں
پچھم کے کچھ ہیں اہلِ زباں مستند مگر
سب قادر الکلام نہیں خوش بیاں نہیں
جو نکتہ داں ہیں واقفِ فن ماہرِ زباں
کچھ ان کے اتباعِ سخن میں زیاں نہیں
کالج کی ڈگریوں کی شفق کو ہو کیا امید
جب اس کی جیب میں سندِ امتحاں نہیں
حضرت شفق کے ارشاد پر میری طرف سے اشعار ذیل میں تبصرہ ہوا:
جو کچھ کہا جناب شفق نے ، خدا گواہ
اس میں ہمیں مجال چنیں و چناں نہیں
ہم کو سلیقہ گرچہ نہیں انتقاد کا
ہم گرچہ نکتہ رس نہیں اور نکتہ داں نہیں
لیکن اگر کسی کو ہو یہ ادعا کہ آج
ہندوستاں میں ایک بھی شیوا بیاں نہیں
ہم کو نہیں ہے اس کے عقیدے سے اتفاق
ہم اس کی ایسی ہاں میں ملا سکتے ہاں نہیں
اقبال ہی کو لیجئے گر چاہیے مثال
جو نکتہ چیں کے زعم میں اہلِ زباں نہیں
وہ کون سی زمین ہے دنیائے فکر میں
اس نے بنا دیا جسے آج آسماں نہیں
ملت کے دل کے واسطے سرمایۂ گداز
کیا اس کی دردناک نوا ریزیاں نہیں
کیا اس کی داستان کی جدت طرازیاں
صرفِ بقائے سلسلۂ پاستاں نہیں
اس کے کلام میں نہیں کیا سوزِ میر و درد
یا غالب و امیر کی رنگینیاں نہیں
دہلی و لکھنؤ پہ نہیں حصرِ شاعری
وہ خطہ کونسا ہے یہ دولت جہاں نہیں
مولانا ظفر علی خان