محمد تابش صدیقی
منتظم
حسنِ آغاز دے رہا ہے مجھے
لذتِ ساز دے رہا ہے مجھے
شوقِ پرواز دے رہا ہے مجھے
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
دامنِ انتظار پھیلا کر
وقت کے گیسوؤں کو لہرا کر
دلِ بیتاب کے قریب آ کر
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
ظلمت و ماہ سے گزر جاؤں
رہبر و راہ سے گزر جاؤں
نغمہ و آہ سے گزر جاؤں
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
محفلِ عیش و غم میں کیا ٹھہروں
بزمِ دیر و حرم میں کیا ٹھہروں
راہ کے پیچ و خم میں کیا ٹھہروں
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
عالمِ رنگ و بو سے بھی آگے
سرحدِ جستجو سے بھی آگے
منزلِ آرزو سے بھی آگے
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
شامِ دیجور ہو کہ صبحِ بہار
اجنبی شہر ہو کہ اپنا دیار
دل بہرحال ہے حریفِ قرار
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
نغمگی آ گئی ہے آہوں میں
پھول سے کھل اٹھے نگاہوں میں
زندگی کی حسین راہوں میں
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
٭٭٭
قابلؔ اجمیری
لذتِ ساز دے رہا ہے مجھے
شوقِ پرواز دے رہا ہے مجھے
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
دامنِ انتظار پھیلا کر
وقت کے گیسوؤں کو لہرا کر
دلِ بیتاب کے قریب آ کر
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
ظلمت و ماہ سے گزر جاؤں
رہبر و راہ سے گزر جاؤں
نغمہ و آہ سے گزر جاؤں
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
محفلِ عیش و غم میں کیا ٹھہروں
بزمِ دیر و حرم میں کیا ٹھہروں
راہ کے پیچ و خم میں کیا ٹھہروں
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
عالمِ رنگ و بو سے بھی آگے
سرحدِ جستجو سے بھی آگے
منزلِ آرزو سے بھی آگے
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
شامِ دیجور ہو کہ صبحِ بہار
اجنبی شہر ہو کہ اپنا دیار
دل بہرحال ہے حریفِ قرار
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
نغمگی آ گئی ہے آہوں میں
پھول سے کھل اٹھے نگاہوں میں
زندگی کی حسین راہوں میں
کوئی آواز دے رہا ہے مجھے
٭٭٭
قابلؔ اجمیری