ابن انشا نظم- ابنِ انشا

یہ سرائے ہے، یہاں کس کا ٹھکانہ ڈھونڈو
یاں تو آتے ہیں مسافر، سو چلے جاتے ہیں

ہاں یہی نام تھا، کچھ ایسا ہی چہرہ مہرا
یاد پڑتا ہے کہ آیا تھا مسافر کوئی
سونے آنگن میں پھرا کرتا تھا تنہا تنہا
کتنی گہری تھی نگاہوں کی اداسی اس کی
لوگ کہتے تھے کہ ہوگا کوئی آسیب زدہ
ہم نے ایسی بھی کوئی بات نہ اس میں دیکھی

یہ بھی ہمت نہ ہوئی پاس بٹھا کے پوچھیں
دل یہ کہتا تھا کہ کوئی درد کا مارا ہوگا
لوٹ آیا ہے جو آواز نہ اس کی پائی
جانے کس در پہ کسے جا کے پکارا ہوگا
یاں تو ہر روز کی باتیں ہیں یہ جیتیں ماتیں
یہ بھی چاہت کے کسی کھیل میں ہارا ہوگا

ایک تصویر تھی، کچھ آپ سے ملتی جلتی
ایک تحریر تھی، پر اس کا تو قصہ چھوڑو
چند غزلیں تھیں کہ لکھیں کبھی لکھ کر کاٹیں
شعر اچھے تھے، جو سن لو تو کلیجہ تھامو
بس یہی حال مسافر کا تھا ہم نے دیکھا
جانے کس راہ میں کس شخص نے لوٹا اس کو

گزرا کرتے ہیں سلگتے ہوئے باقی ایام
لوگ جب آگ لگاتے ہیں بجھاتے بھی نہیں
اجنی پیت کے ماروں سے کسی کو کیا کام
بستیوں والے کبھی ناز اٹھاتے بھی نہیں
چھین لیتے ہیں کسی شخص سے جی کا آرام
پھر بلاتے بھی نہیں، پاس بٹھاتے بھی نہیں

ایک دن صبح جو دیکھا تو سرائے میں نہ تھا
جانے کس دیس گیا ہے وہ دوانا، ڈھونڈو
ہم سے پوچھو تو نہ آئے گا وہ جانے والا
تم تو ناحق کو بھٹکنے کا بہانا ڈھونڈو
یاں تو آیا جو مسافر یونہی شب بھر ٹھہرا
یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانہ ڈھونڈو
 
Top