فرحان محمد خان
محفلین
انتظار
خواب ہی خواب کہاں تک جھلکیں
خستگی رات کی ، اٹھتا ہوا درد
آہنی نیند سے بوجھل پلکیں
اوس کھڑکی کے خنک شیشے پر
برص کے داغ کی صورت تارے
طنز اک رات کے آئینے پر
نیند آنکھوں کی بکھر جاتی ہے
سرد جھونکوں میں وہ آہٹ ہے ابھی
جنبشِ دل بھی ٹھہر جاتی ہے
رات کٹتی نہیں کٹ جائے گی
اور ترے درد کی دنیا اے دوست
وقت کی دھُول میں اَٹ جائے گی
خواب ہی خواب کہاں تک جھلکیں
خستگی رات کی ، اٹھتا ہوا درد
آہنی نیند سے بوجھل پلکیں
اوس کھڑکی کے خنک شیشے پر
برص کے داغ کی صورت تارے
طنز اک رات کے آئینے پر
نیند آنکھوں کی بکھر جاتی ہے
سرد جھونکوں میں وہ آہٹ ہے ابھی
جنبشِ دل بھی ٹھہر جاتی ہے
رات کٹتی نہیں کٹ جائے گی
اور ترے درد کی دنیا اے دوست
وقت کی دھُول میں اَٹ جائے گی
عزیز حامد مدنی
1947ء
1947ء