نظم (اچھے دن آنے والے ہیں) برائے اصلاح

محمد فائق

محفلین
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں
کس نے جھوٹا خواب دکھایا سچائی سے دور کیا
کس نے خریدیں سب کی امیدیں
کس نے کیے جھوٹے وعدے
کون تھا یہ کہنے والا
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

گرم ہوا بازارِ نفرت
گرتا گیا بازارِ محبت
شر پھیلا ہے بنامِ مذہب
پانی پانی خود ہے سیاست
ہندو مسلم سکھ عیسائی سب ہیں پریشاں
سب کا حال اک جیسا ہے
سب کے لب پر شکوہ ہے
جھوٹ بھی کہتا نہیں کوئی اب
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

مہنگائی نے ستم ہے ڈھایا
غربت کو ہے جرم بنایا
فاقہ کشی کا عجب ہے عالم
بڑھتی ہی جارہی ہے پیہم
کون غریبوں کو دے دلاسا فاقہ کشوں کو کون سنبھالے
باقی ہے امید کہاں
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

ہر سو جنگل راج بپا ہے
خوف کا ہر دل پر پہرہ ہے
دیتا ہے قانون دہائی
جمہوریت خطرے میں پڑی ہے رہزن رہبر بنے ہوئے ہیں
کون کرے ایسے میں توقع
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

سست ہوئی رفتارِ ترقی بڑھتی ہی جا رہی ہے پستی
اندھ بھکتی کا ہے چرچا شمعِ بصیرت بجھی ہوئی ہے
سوالِ کرنا جرم ہوا ہے
مول لے کیوں کوئی مصیبت کوئی کرے کیوں کر یہ سوال
اچھے دن آنے والے ہیں؟
اچھے دن آنے والے ہیں؟

الف عین سر
 

الف عین

لائبریرین
نوے فی صد مصرع چار بار فعلن میں ہیں تو جو نہیں ہیں ان کو بھی کر دیا جائے جنہیں انڈر لائن کر دیا ہے

اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں
کس نے جھوٹا خواب دکھایا
سچائی سے دور کیا
کس نے خریدیں سب کی امیدیں
کس نے کیے جھوٹے وعدے
کون تھا یہ کہنے والا
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

گرم ہوا بازارِ نفرت
گرتا گیا بازارِ محبت
شر پھیلا ہے بنامِ مذہب
پانی پانی خود ہے سیاست
ہندو مسلم سکھ عیسائی
سب ہیں پریشاں
سب کا حال اک جیسا ہے
سب کے لب پر شکوہ ہے

جھوٹ بھی کہتا نہیں کوئی اب
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

مہنگائی نے ستم ہے ڈھایا
غربت کو ہے جرم بنایا
فاقہ کشی کا عجب ہے عالم
بڑھتی ہی جارہی ہے پیہم
کون غریبوں کو دے دلاسا
فاقہ کشوں کو کون سنبھالے
باقی ہے امید کہاں
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

ہر سو جنگل راج بپا ہے
خوف کا ہر دل پر پہرہ ہے
دیتا ہے قانون دہائی
جمہوریت خطرے میں پڑی ہے
رہزن رہبر بنے ہوئے ہیں
کون کرے ایسے میں توقع
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

سست ہوئی رفتارِ ترقی بڑھتی ہی جا رہی ہے پستی
اندھ بھکتی کا ہے چرچا
شمعِ بصیرت بجھی ہوئی ہے
سوالِ کرنا جرم ہوا ہے
مول لے کیوں کوئی مصیبت کوئی کرے کیوں کر یہ سوال
اچھے دن آنے والے ہیں؟
اچھے دن آنے والے ہیں؟
 

محمد فائق

محفلین
نوے فی صد مصرع چار بار فعلن میں ہیں تو جو نہیں ہیں ان کو بھی کر دیا جائے جنہیں انڈر لائن کر دیا ہے

اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں
کس نے جھوٹا خواب دکھایا
سچائی سے دور کیا
کس نے خریدیں سب کی امیدیں
کس نے کیے جھوٹے وعدے
کون تھا یہ کہنے والا

اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

گرم ہوا بازارِ نفرت
گرتا گیا بازارِ محبت
شر پھیلا ہے بنامِ مذہب
پانی پانی خود ہے سیاست
ہندو مسلم سکھ عیسائی
سب ہیں پریشاں
سب کا حال اک جیسا ہے
سب کے لب پر شکوہ ہے

جھوٹ بھی کہتا نہیں کوئی اب
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

مہنگائی نے ستم ہے ڈھایا
غربت کو ہے جرم بنایا
فاقہ کشی کا عجب ہے عالم
بڑھتی ہی جارہی ہے پیہم
کون غریبوں کو دے دلاسا
فاقہ کشوں کو کون سنبھالے
باقی ہے امید کہاں
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

ہر سو جنگل راج بپا ہے
خوف کا ہر دل پر پہرہ ہے
دیتا ہے قانون دہائی
جمہوریت خطرے میں پڑی ہے
رہزن رہبر بنے ہوئے ہیں
کون کرے ایسے میں توقع
اچھے دن آنے والے ہیں
اچھے دن آنے والے ہیں

سست ہوئی رفتارِ ترقی بڑھتی ہی جا رہی ہے پستی
اندھ بھکتی کا ہے چرچا
شمعِ بصیرت بجھی ہوئی ہے
سوالِ کرنا جرم ہوا ہے
مول لے کیوں کوئی مصیبت کوئی کرے کیوں کر یہ سوا
ل
اچھے دن آنے والے ہیں؟
اچھے دن آنے والے ہیں؟
رہنمائی کے لیے شکریہ سر
کیا فعلن کی تکرار ہر مصرعے میں برابر ہونا ضروری ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
رہنمائی کے لیے شکریہ سر
کیا فعلن کی تکرار ہر مصرعے میں برابر ہونا ضروری ہے؟
صرف دو چار مصرعوں میں ہی تعداد مختلف نہ ہو، بلکہ زیادہ تر میں مختلف ہونا بہتر ہے ۔ اگر ستر اسی فی صد میں چار بار فعلن (یا دو بار فعل فعولن) ہے تو باقی کو بھی توڑ کر چار بار کر کے معرہ نظم بنا دینا بہتر ہو گا
 
Top