فرحان محمد خان
محفلین
اک زخمِ تمنا اور سہی
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
کیوں کہتے ہوئے شرمائیں ہم دنیا نے ہمیں ٹھکرایا ہے
ہر سانس میں ایسا لگتا ہے شعلہ سا کوئی لہرایا ہے
یہ سُرخ جو رہتی ہیں آنکھیں زخموں نے لہو چھلکایا ہے
دو گھاؤ ہوں جیسے چہرے پرخود دیکھ لو ہم دکھلائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
بے کار رہے اک عمر تک چاہا تھا ہمیں کچھ کام ملے
کچھ آگ سے دہکے پیمانے ، کچھ زہر سے چھلکے جام ملے
تھوڑی سی جو پی لی گھبرا کر کیا کیا نہ ہمیں الزام ملے
ہم زندِ بلا کش کہلائے ، اب لوگوں کو سمجھائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
جھیلی ہے سزا خود داری کی ، پر ہاتھ نہیں پھیلائے ہیں
اوروں کے لیے ہر درد سہا اس پر بھی بُرے کہلائے ہیں
تیروں کا جنھیں فن سکھلایا خود تیر اُنھیں سے کھائے ہیں
جو زخم ملے ہیں اپنوں سے اُن زخموں کو گنوائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
آتی تھیں صدائیں جن کی کبھی خلوت میں دل کے تاروں سے
ہم جان چھڑکتے تھے جن پر یاری نہ نبھی اُن یاروں سے
یہ زخم جو دل نے کھائے ہیں گہرے ہیں کہیں تلواروں سے
معلوم نہ ہو جب اپنی خطا ، ہم عذر بھی لے کر جائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
خود اپنی نظر میں چور بنے لائے تھے لگن پروانوں کی
معلوم ہوا یہ دنیا ہے عیار سیاست دانوں کی
ہم دشتِ جنوں کے دیوانے ، کیا قدر یہاں دیوانوں کی
گھر پھونگ تماشا دیکھا ہے ان باتوں کو دہرائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
مانا کہ بہاریں آئیں گی ، کاغذ کے ابھی گُل بوٹے ہیں
خود اپنے رہبر ساتھی بھی کچھ اصلی باقی جھوٹے ہیں
ہر موڑ پہ اپنے تلووں میں کچھ اور بھی کانٹے ٹوٹے ہیں
جو ہے وہ حقیقت کیوں نہ کہیں یہ زہر بھی ہم پی جائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
جو زخم ملے ان آنکھوں کو نظروں کی جلا کہلائے ہیں
جو زخم ملے ان ہاتھوں کو محنت کا صلا کہلائے ہیں
جو زخم ملے اس سینے کو انعامِ وفا کہلائے ہیں
کیا خوب حسیں تاویلیں ہیں ، پر جان کے دھوکا کھائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
ان جلتے تپتے زخموں کو سینے سے لگا کر پالا ہے
ہر شعلۂ خون دل اپنا ، اشعار میں ہم نے ڈھالا ہے
لو دیتے ہوئے ان لفظوں کو پر کون پرکھنے والا ہے
جب ناقدِ سوزِ دل ہی نہ ہو ہم داد سخن کی پائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
دنیا سے تو کتنے شکوے ہیں اک تم سے شکوا اور سہی
سو درد بسے ہیں اس دل میں اک داغ تمہارا اور سہی
اک زخمِ محبت اور سہی ، اک زخمِ تمنا اور سہی
تم سچ ہے ہمیں اپناؤ کیا ، ہم سچ ہے تمھیں اپنائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
کیوں کہتے ہوئے شرمائیں ہم دنیا نے ہمیں ٹھکرایا ہے
ہر سانس میں ایسا لگتا ہے شعلہ سا کوئی لہرایا ہے
یہ سُرخ جو رہتی ہیں آنکھیں زخموں نے لہو چھلکایا ہے
دو گھاؤ ہوں جیسے چہرے پرخود دیکھ لو ہم دکھلائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
بے کار رہے اک عمر تک چاہا تھا ہمیں کچھ کام ملے
کچھ آگ سے دہکے پیمانے ، کچھ زہر سے چھلکے جام ملے
تھوڑی سی جو پی لی گھبرا کر کیا کیا نہ ہمیں الزام ملے
ہم زندِ بلا کش کہلائے ، اب لوگوں کو سمجھائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
جھیلی ہے سزا خود داری کی ، پر ہاتھ نہیں پھیلائے ہیں
اوروں کے لیے ہر درد سہا اس پر بھی بُرے کہلائے ہیں
تیروں کا جنھیں فن سکھلایا خود تیر اُنھیں سے کھائے ہیں
جو زخم ملے ہیں اپنوں سے اُن زخموں کو گنوائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
آتی تھیں صدائیں جن کی کبھی خلوت میں دل کے تاروں سے
ہم جان چھڑکتے تھے جن پر یاری نہ نبھی اُن یاروں سے
یہ زخم جو دل نے کھائے ہیں گہرے ہیں کہیں تلواروں سے
معلوم نہ ہو جب اپنی خطا ، ہم عذر بھی لے کر جائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
خود اپنی نظر میں چور بنے لائے تھے لگن پروانوں کی
معلوم ہوا یہ دنیا ہے عیار سیاست دانوں کی
ہم دشتِ جنوں کے دیوانے ، کیا قدر یہاں دیوانوں کی
گھر پھونگ تماشا دیکھا ہے ان باتوں کو دہرائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
مانا کہ بہاریں آئیں گی ، کاغذ کے ابھی گُل بوٹے ہیں
خود اپنے رہبر ساتھی بھی کچھ اصلی باقی جھوٹے ہیں
ہر موڑ پہ اپنے تلووں میں کچھ اور بھی کانٹے ٹوٹے ہیں
جو ہے وہ حقیقت کیوں نہ کہیں یہ زہر بھی ہم پی جائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
جو زخم ملے ان آنکھوں کو نظروں کی جلا کہلائے ہیں
جو زخم ملے ان ہاتھوں کو محنت کا صلا کہلائے ہیں
جو زخم ملے اس سینے کو انعامِ وفا کہلائے ہیں
کیا خوب حسیں تاویلیں ہیں ، پر جان کے دھوکا کھائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
ان جلتے تپتے زخموں کو سینے سے لگا کر پالا ہے
ہر شعلۂ خون دل اپنا ، اشعار میں ہم نے ڈھالا ہے
لو دیتے ہوئے ان لفظوں کو پر کون پرکھنے والا ہے
جب ناقدِ سوزِ دل ہی نہ ہو ہم داد سخن کی پائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
دنیا سے تو کتنے شکوے ہیں اک تم سے شکوا اور سہی
سو درد بسے ہیں اس دل میں اک داغ تمہارا اور سہی
اک زخمِ محبت اور سہی ، اک زخمِ تمنا اور سہی
تم سچ ہے ہمیں اپناؤ کیا ، ہم سچ ہے تمھیں اپنائیں کیا
یہ زخم ہی اپنا حصّہ ہیں ، ان زخموں پر شرمائیں کیا
جاں نثار اختر
آخری تدوین: