نظم (ایک گھر کی کہانی)

اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

چین اور شادمانی بھرا تھا جو گھر
اب وہاں ہیں فقط بھوک، افلاس و ڈر
اُس شکستہ سے گھر کا ہے وہ بھی مکیں
وحشتوں میں گھِرا جِس کا ہر فرد ہے

اُس نے غلبہ مکینوں پہ ہے پالیا
مال و اسباب سب لوٹ کر کھا لیا
بن کے سارے گھرانے کا وہ سربراہ
کہہ رہا ہے مکینوں کا ہمدرد ہے

گھر پہ چھائی ہوئی درد کی دُھوپ میں
حملہ آور ہیں ظالم کئی رُوپ میں
اہلِ دل، دل شکستہ ہیں یہ دیکھ کر
اُن کے دل میں بھرا درد ہی درد ہے

دوستوں پر بڑا ناز کرتے رہے
اُن کی خاطر لڑائی میں مرتے رہے
اب کڑا وقت اُن پر ہے تو جانے کیوں
دوستوں کا رویہ بہت سرد ہے

آن گھر کی بچائے جو کوئی نہیں
منتظر اک مسیحا کے ہیں سب مکیں
اِن دگرگوں ہوئے گھر کے حالات میں
آبرو جو بچالے جہاں گرد ہے

گھر کے دشمن سے لڑ نا اُسے مارنا
آبرُو آن عزت پہ جاں وارنا
یہ ہیں مردانہ اوصاف جس میں بھی ہوں
جنس کوئی بھی ہو بس وہی مرد ہے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

چین اور شادمانی بھرا تھا جو گھر
اب وہاں ہیں فقط بھوک، افلاس و ڈر
اُس شکستہ سے گھر کا ہے وہ بھی مکیں
وحشتوں میں گھِرا جِس کا ہر فرد ہے
افلاس اور ہندی ڈر کو وَاو عطف سے نہیں جوڑا جا سکتا
اُس نے غلبہ مکینوں پہ ہے پالیا
مال و اسباب سب لوٹ کر کھا لیا
بن کے سارے گھرانے کا وہ سربراہ
کہہ رہا ہے مکینوں کا ہمدرد ہے
یہ تو لگتا ہے کہ گھر کا مالک کوئی زبردستی بن بیٹھا ہے!

گھر پہ چھائی ہوئی درد کی دُھوپ میں
حملہ آور ہیں ظالم کئی رُوپ میں
اہلِ دل، دل شکستہ ہیں یہ دیکھ کر
اُن کے دل میں بھرا درد ہی درد ہے

دوستوں پر بڑا ناز کرتے رہے
اُن کی خاطر لڑائی میں مرتے رہے
اب کڑا وقت اُن پر ہے تو جانے کیوں
دوستوں کا رویہ بہت سرد ہے
یہ دونوں بند تو غیر متعلق لگ رہے ہیں

آن گھر کی بچائے جو کوئی نہیں
منتظر اک مسیحا کے ہیں سب مکیں
اِن دگرگوں ہوئے گھر کے حالات میں
آبرو جو بچالے جہاں گرد ہے
ٹیپ کا مصرع سمجھ میں نہیں آ سکا، جہاں گرد کیوں چاہتے ہیں؟

گھر کے دشمن سے لڑ نا اُسے مارنا
آبرُو آن عزت پہ جاں وارنا
یہ ہیں مردانہ اوصاف جس میں بھی ہوں
جنس کوئی بھی ہو بس وہی مرد ہے
ٹھیک
 
چین اور شادمانی بھرا تھا جو گھر
اب وہاں ہیں فقط بھوک، افلاس و ڈر
اُس شکستہ سے گھر کا ہے وہ بھی مکیں
وحشتوں میں گھِرا جِس کا ہر فرد ہے

افلاس اور ہندی ڈر کو وَاو عطف سے نہیں جوڑا جا سکتا
سر الف عین صاحب ! توجہ فرمانے کا شکریہ۔
واؤ کو قومے سے بد دیا ہے
چین اور شادمانی بھرا تھا جو گھر
اب وہاں ہیں فقط بھوک، افلاس، ڈر
اُس شکستہ سے گھر کا ہے وہ بھی مکیں
وحشتوں میں گھِرا جِس کا ہر فرد ہے
اُس نے غلبہ مکینوں پہ ہے پالیا
مال و اسباب سب لوٹ کر کھا لیا
بن کے سارے گھرانے کا وہ سربراہ
کہہ رہا ہے مکینوں کا ہمدرد ہے

یہ تو لگتا ہے کہ گھر کا مالک کوئی زبردستی بن بیٹھا ہے!
جی سر ایسے ہی ہے۔ پہلے دو مصرعوں میں بیان کی گئی خاصیتوں (یعنی زبردستی کرنا، بے ایمانی کرکے دوسروں کا حق کھانا )کی وجہ سے گھر کے باقی مکین اسے سربراہ نہیں بنانا چاہتے لیکن وہ دھونس جما کر بن گیا ہے۔
گھر پہ چھائی ہوئی درد کی دُھوپ میں
حملہ آور ہیں ظالم کئی رُوپ میں
اہلِ دل، دل شکستہ ہیں یہ دیکھ کر
اُن کے دل میں بھرا درد ہی درد ہے

دوستوں پر بڑا ناز کرتے رہے
اُن کی خاطر لڑائی میں مرتے رہے
اب کڑا وقت اُن پر ہے تو جانے کیوں
دوستوں کا رویہ بہت سرد ہے

یہ دونوں بند تو غیر متعلق لگ رہے ہیں
گھر پہ چھائی ہوئی درد کی دُھوپ میں
حملہ آور ہیں ظالم کئی رُوپ میں
دل شکستہ ہیں کمزور ہیں سب مکیں
اُن کے دل میں مگر درد ہی درد ہے

دوستوں پر مکیں ناز کرتے رہے
اُن کی خاطر لڑائی میں مرتے رہے
اب کڑا وقت گھر پر ہے تو جانے کیوں
دوستوں کا رویہ بہت سرد ہے
آن گھر کی بچائے جو کوئی نہیں
منتظر اک مسیحا کے ہیں سب مکیں
اِن دگرگوں ہوئے گھر کے حالات میں
آبرو جو بچالے جہاں گرد ہے

ٹیپ کا مصرع سمجھ میں نہیں آ سکا، جہاں گرد کیوں چاہتے ہیں؟
آن گھر کی بچائے جو کوئی نہیں
منتظر اک مسیحا کے ہیں سب مکیں
اِن دگرگوں ہوئے گھر کے حالات میں
گھر کو جو بھی بچالے جہاں گرد ہے
جہاں گرد بمعنی جہاندیدہ، تجربہ کار
 
آن گھر کی بچائے جو کوئی نہیں
منتظر اک مسیحا کے ہیں سب مکیں
اِن دگرگوں ہوئے گھر کے حالات میں
گھر کو جو بھی بچالے جہاں گرد ہے

لیکن یہ صرف کنایتاً ہے یہاں ایسا نہیں لگتا
سر الف عین صاحب! جہاں گرکا یہ استعمال کیسا ہے؟
چین اور شادمانی بھرا تھا جو گھر
اب وہاں ہیں فقط بھوک، افلاس، ڈر
اُس شکستہ سے گھر کا ہے وہ بھی مکیں
وحشتوں میں گھِرا جِس کا ہر فرد ہے

اُس نے غلبہ مکینوں پہ ہے پالیا
مال و اسباب سب لوٹ کر کھا لیا
بن کے سارے گھرانے کا وہ سربراہ
کہہ رہا ہے مکینوں کا ہمدرد ہے


گھر پہ چھائی ہوئی درد کی دُھوپ میں
حملہ آور ہیں ظالم کئی رُوپ میں
دل شکستہ ہیں کمزور ہیں سب مکیں
اُن کے دل میں مگر درد ہی درد ہے

دوستوں پر مکیں ناز کرتے رہے
اُن کی خاطر لڑائی میں مرتے رہے
اب کڑا وقت گھر پر ہے تو جانے کیوں
دوستوں کا رویہ بہت سرد ہے

جنس نَر ہی دکھاتا ہے مردانگی
یہ جہالت ہے بس اور دیوانگی
جو مکیں ان خیالوں پہ ہے معترض
وہ نئی سوچ والا جہاں گرد ہے


گھر کے دشمن سے لڑ نا اُسے مارنا
آبرُو آن عزت پہ جاں وارنا
یہ ہیں مردانہ اوصاف جس میں بھی ہوں
جنس کوئی بھی ہو بس وہی مرد ہے
 
Top