نظم برائے اصلاح،

ہم اور تم

ہم اور تم تھے
کسی جنم میں
گلاب کی شاخ پر ہویدا
تو پھول بن کے، میں خار بن کے
تو پھول بن کے مہک رہی تھی
میں خار بن کے الجھ رہا تھا
ہم اور تم ہیں
اب اس جنم میں
اسی زمانے کے دو گھروں میں
امیر ہو تو دمک رہی ہے
غریب ہوں میں سلگ رہا ہوں
ہم اور تم
ہوں گے اک جنم میں
کبھی تو ایسی جگہ پہ پیدا
جہاں نہ تم پھول بن کے مہکو
جہاں نہ میں خار بن کے الجھوں
جہاں امیری میں تم نہ دمکو
جہاں غریبی میں، میں نہ سلگوں
اسی جنم میں مری رگِ جاں
ہمارا اصلی ملاپ ہوگا
 

سید عاطف علی

لائبریرین
گلاب کی شاخ پر ہویدا

یہاں نظم کے تناظر میں ہویدا کی جگہ کچھ اور ہونا بہتر ہوگا۔ ہویدا پوشیدگی سے کچھ ظاہر ہونے کے معنی رکھتا ہے۔
پہلے حصے میں اگر دوسرے حصے کی طرح "تم اور میں یا تم اور ہم" کی طرح کا اسلوب قائم رکھا جاتا توقدرے زیادہ جاذب لگتا۔
آخر میں ملاپ کا لفظ بھی کچھ نفیس تاثر نہیں چھوڑتا۔
ایک آدھ ٹائپو بھی ہے۔ اور نظم مجموعی طور پر اچھی ہے۔
 
یہاں نظم کے تناظر میں ہویدا کی جگہ کچھ اور ہونا بہتر ہوگا۔ ہویدا پوشیدگی سے کچھ ظاہر ہونے کے معنی رکھتا ہے۔
پہلے حصے میں اگر دوسرے حصے کی طرح "تم اور میں یا تم اور ہم" کی طرح کا اسلوب قائم رکھا جاتا توقدرے زیادہ جاذب لگتا۔
آخر میں ملاپ کا لفظ بھی کچھ نفیس تاثر نہیں چھوڑتا۔
ایک آدھ ٹائپو بھی ہے۔ اور نظم مجموعی طور پر اچھی ہے۔
خامیوں کی نشاندہی کا شکریہ، یقیناََ ایک ٹائپو بھی رہ گیا تھا،
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نظم میں کہیں تم اور کہیں تو کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے. کیا یہ شترگربہ نہیں کہلائے گا؟
شتر گربگی کی کیفیت عموما کیوں کہ (غزل کے) شعر میں چبھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کہ ایک ہی شعر میں اسلو ب یکلخت بدلتا ہوا عجیب سا لگتا ہے۔ نظم میں کیوں کہ طویل حصوں پر مشتمل امور کہے جاتے ہیں اس لیے اگر یہ حصے تک محدود ہو تو کوئی خاص بات نہیں لیکن مختصرنظم میں بہر حال محسوس ہوتی ہے جیسا کہ زیر نظر نظم میں ہے۔ اس لیے اس کی رعایت برتتے ہوئے کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔
 
Top