محمد شکیل خورشید
محفلین
ہم اور تم
ہم اور تم تھے
کسی جنم میں
گلاب کی شاخ پر ہویدا
تو پھول بن کے، میں خار بن کے
تو پھول بن کے مہک رہی تھی
میں خار بن کے الجھ رہا تھا
ہم اور تم ہیں
اب اس جنم میں
اسی زمانے کے دو گھروں میں
امیر ہو تو دمک رہی ہے
غریب ہوں میں سلگ رہا ہوں
ہم اور تم
ہوں گے اک جنم میں
کبھی تو ایسی جگہ پہ پیدا
جہاں نہ تم پھول بن کے مہکو
جہاں نہ میں خار بن کے الجھوں
جہاں امیری میں تم نہ دمکو
جہاں غریبی میں، میں نہ سلگوں
اسی جنم میں مری رگِ جاں
ہمارا اصلی ملاپ ہوگا
ہم اور تم تھے
کسی جنم میں
گلاب کی شاخ پر ہویدا
تو پھول بن کے، میں خار بن کے
تو پھول بن کے مہک رہی تھی
میں خار بن کے الجھ رہا تھا
ہم اور تم ہیں
اب اس جنم میں
اسی زمانے کے دو گھروں میں
امیر ہو تو دمک رہی ہے
غریب ہوں میں سلگ رہا ہوں
ہم اور تم
ہوں گے اک جنم میں
کبھی تو ایسی جگہ پہ پیدا
جہاں نہ تم پھول بن کے مہکو
جہاں نہ میں خار بن کے الجھوں
جہاں امیری میں تم نہ دمکو
جہاں غریبی میں، میں نہ سلگوں
اسی جنم میں مری رگِ جاں
ہمارا اصلی ملاپ ہوگا