نظم برائے اصلاح

برف

برف کے گرتے گالے دیکھو
لگتے کتنے پیارے دیکھو

بچھ گئی ہر سو برف کی چادر
ڈھانپ دیا ہر شے کو آ کر

ہر سو دیکھو ایک نظارہ
اجلا اجلا پیارا پیارا

ایک خموشی ہر سو چھائی
پنچھی بولے کوئی کوئی

برف کا دیکھو بوجھ اٹھائے
پیڑ کھڑے ہیں سر کو جھکائے

دھوپ سے چمکے دیکھو کیسے
سونے کے ہوں ذرے جیسے

ندی نالے سوکھ گئے تھے
دریاؤں سے روٹھ گئے تھے

برف بنے گی دھوپ سے پانی
پانی ہو گا ہر سُو یعنی

پگھلے گی جب کہساروں سے
شور اٹھے گا دریاؤں سے

برف زمیں کی پیاس بجھائے
اور زمیں پھر سبزہ اگائے

شان نرالی رب نے دکھائی
بارش کے قطروں سے بنائی

نعمت یہ انمول ملی ہے
اور ہمیں بے مول ملی ہے

برف ہے اک احسان خدا کا
شکر کرو عمران خدا کا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ویسے تو دو جگہ قوافی کی غلطی ہے چھائی اور کوئی، پانی اور یعنی، روٹھ اور سوکھ درست قوافی نہیں ہیں لیکن بچوں کی نظموں میں گوارا کیے جا سکتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ چھائی ۔ کوئی والا شعر بدل ہی دو۔ یوں بھی 'بس کوئی کوئی ہی پنچھی بولتا ہے' کا بیانیہ اس مصرع سے واضح نہیں ہوتا
 
ویسے تو دو جگہ قوافی کی غلطی ہے چھائی اور کوئی، پانی اور یعنی، روٹھ اور سوکھ درست قوافی نہیں ہیں لیکن بچوں کی نظموں میں گوارا کیے جا سکتے ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ چھائی ۔ کوئی والا شعر بدل ہی دو۔ یوں بھی 'بس کوئی کوئی ہی پنچھی بولتا ہے' کا بیانیہ اس مصرع سے واضح نہیں ہوتا
بہت بہت شکریہ بہت نوازش۔جزاک اللہ!
کوئی کوئی والا شعر نکال دیتا ہوں۔
سوکھ ،روٹھ ا والا رہنے دوں ؟

پانی یعنی والے کو یوں بدل دوں تو۔

برف بنے گی دھوپ سے پانی
دریا میں آئے گی طغیانی
 
آخری تدوین:
برف کے گرتے گالے دیکھو
لگتے کتنے پیارے دیکھو

بچھ گئی ہر سو برف کی چادر
ڈھانپ دیا ہر شے کو آ کر

ہر سو دیکھو ایک نظارہ
اجلا اجلا پیارا پیارا

برف کا دیکھو بوجھ اٹھائے
پیڑ کھڑے ہیں سر کو جھکائے

دھوپ سے چمکے دیکھو کیسے
سونے کے ہوں ذرے جیسے

ندی نالے سوکھ گئے تھے
دریاؤں سے روٹھ گئے تھے

برف بنے گی دھوپ سے پانی
آئے گی دریا میں طغیانی

پگھلے گی جب کہساروں سے
شور اٹھے گا دریاؤں سے

برف زمیں کی پیاس بجھائے
اور زمیں پھر سبزہ اگائے

نعمت یہ انمول ملی ہے
اور ہمیں بے مول ملی ہے

خوب کرشمہ رب نے دکھایا
بارش کے قطروں کو جمایا

برف ہے اک احسان خدا کا
شکر کرو عمران خدا کا
 
Top