مہدی نقوی حجاز
محفلین
بطونِ خاک سے باتیں!
شبستانِ حیاتِ آدمی کیشکستہ حال دیواروں کے نیچے
جہاں ہیں بس پکاریں جھینگروں کی
میں دیوانہ یہاں کیا کر رہا ہوں!
اٹھو!جاگو!
مرے ناگفتنی حالات کی تم
ذرا فریاد سن لو
سبھی کہہ دینے والی خامشی کی
ذرا آواز سن لو
مجھے دیکھو!
میں پھر اک بار ملنے کی ہوس میں
یہاں تک آ گیا ہوں
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی میں
تمہارے واسطے لایا ہوں تحفے
وہی پھولوں کا گلدستہ ہے، لیکن
ذرا بپھرا ہوا ہے
بہت سے پھول ہیں، کچھ پتیاں ہیں
وہی عطرِ گلابِ ناب ہے، پر
بہت ہی بدنما شیشی ملی ہے
کہ جس پر عرقِ گل لکھا ہوا ہے
وہی شمعیں جنہیں ہم میز کے سینے پہ رکھ کر
گلابی چاندنی راتوں میں اکثر
جلا کر دیر تک کھاتے تھے کھانا،
اگربتی کی صورت میں ملی ہیں!
اٹھا لایا ہوں مٹی کے کٹورے
رکھا ہے ایک تو پانی سے بھر کر
بھرا ہے دوسرے کو باجرے سے
رکھا ہے میں نے انکو صاف کر کے
تمہارے ہی سرہانے۔
تمہارے روز و شب کے ساتھیوں کی خوش دلی کو۔
سنیچر کی سلونی شام میں اب
مجھے سڑکیں بہت ویران لگتی ہیں
تمہارے بن!
یہیں آ کر۔
تمہارے دائمی حجرے کی چوکھٹ پر
غلط کرتا ہوں اپنے غم!
نہیں! بالکل پریشاں تم نہ ہونا
یہ آنسو ہیں خوشی کے۔
خوشی اس بات کی کہ اب تمہیں بالکل بھی اندیشہ نہیں ہوگا
مرے بے ڈھنگ کپڑوں کا
مری سوجی ہوئی آنکھوں کے ڈوروں کا
مری اکھڑی ہوئی بے ساختہ خوں دار کھانسی کا
مرے اَن کھائے کھانوں کا، دواؤں کا
کہ اب سوئے ہوئے ہو تم بطونِ خاک کی گہرائیوں میں۔
بہت آسودہ خاطر ہو
بہت اچھے!
مہدی نقوی حجازؔ