نظم بعنوان تذبذب

Wajih Bukhari

محفلین
4 فروری 2022

تذبذب

کہنے لگا اک روز مرا دل وہ حسیں ہے
یونہی نہیں میں ہو گیا مائل وہ حسیں ہے
تُو دیکھ کہ مثلِ مہِ کامل وہ حسیں ہے
دنیا کی ہر اک شے کے مقابل وہ حسیں ہے

کچھ دیر تو اٹھا نہیں میں دل کے جہاں سے
اکتا کے پھر اک بار نکل آیا وہاں سے

لوٹا تو حقیقت میں کچھ اپنا ہی اثر تھا
جس سمت بھی دیکھا تو جہاں حسن کا گھر تھا
آنکھوں میں تراشا تو ہر اک سنگ گہر تھا
سرشار مناظر سے مرا ذوقِ نظر تھا

سوچا کہ حسیں اور بھی آفاق میں ہونگے
بت اور بھی تقدیر کے اوراق میں ہونگے

معلوم ہے ناداں کوئی مجھ سا نہیں ہو گا
اس طرح تو وہ مجھ سے شناسا نہیں ہو گا
کچھ دل کو تامُّل سے دلاسہ نہیں ہوگا
مانگے بنا سیراب یہ پیاسا نہیں ہو گا

اب سوچتا ہوں اس سے کہوں اپنی کتھا میں
پھر سوچتا ہوں اور ٹھہر جاؤں ذرا میں
 
آخری تدوین:

Wajih Bukhari

محفلین
شاید قافیے کے اسالیب سے اس میں بھی روگردانی کی جسارت کی ہے۔ پیشگی معذرت قبول فرمائیے۔
 
Top