نظم: بلندی کی پیمائش از شہزاد نیر

لاريب اخلاص

لائبریرین
جتنے اونچے ہیں اتنے ہی خاموش ہیں

کن پہاڑوں میں رہنا پڑا ہے مجھے

سارے اپنی بڑائی کی دھن میں مگن

دیکھتے جا رہے ہیں مگر بات کرتے نہیں

بات کرتے ہیں تو خود سے آگے کوئی لفظ کہتے نہیں!

اپنے ہی بوجھ سے

میری خاموشی کوزہ کمر ہو گئی۔۔۔ تو چلی

اک بڑی خامشی کی طرف

اور مری ننھی سی خامشی نے کہا

دھرتی خاموش ہے

یہ خموشی کا گھونگھٹ اٹھائے تو میں اس کی سانسیں گنوں

اے قدیمی خموشی!

جو تو اور میں چپ کی چادر اتاریں

تو دھرتی تکلم کا ملبوس پہنے

پہاڑوں سے ایسی صدائیں اٹھیں

جو سمندر کے سینے میں سوراخ کر دیں

یہ کچلی ہوئی خلق اٹھے

تو چیخوں سے پاتال ہلنے لگے

موج نالہ روانی کرے

اور سینوں میں سہمی صداؤں کی برفوں کو پانی کرے

لفظ ممنوع پھر سے چلے

سوچ کی سرزمیں پر نئی تخم کاری کرے

خیر و شر کی حدوں پر نئی حد کو جاری کرے

اے بڑی خامشی!۔۔۔ اے۔۔۔

مگر خامشی پہلے سے بڑھ کر خاموش تھی!

دل کے غرفوں میں سوئی صداؤ!

اٹھو! صور آدم اٹھاؤ

سرافیلؔ سویا پڑا ہے

تمہی کوئی شور قیامت جگاؤ

اٹھو بے نواؤ!

تمہی اپنی مٹی کی دھڑکن میں دھڑکن ملاؤ

تمہارے بدن پر ہے تعمیر جن کی

صداؤں کی لرزش سے

ان اونچے برجوں کو مل کر زمیں بوس کر دو!

کسی کو نہیں مانتی ہیں

صدائیں، کوئی اونچا نیچا نہیں جانتی ہیں!
 
Top