محمد تابش صدیقی
منتظم
دادا مرحوم کی سن 1978ء کی ایک نظم کہ جس میں انہوں نے ایک کرب کا اظہار کیا، آج بھی حالات ویسے ہی ہیں۔ احبابِ محفل کے ذوق کی نذر:
تنظیمِ گلستاں
تنظیمِ گلستاں کی خاطر کیوں اہلِ گلستاں لڑتے ہیں
ہے بات خلافِ ایماں یہ کیوں صاحبِ ایماں لڑتے ہیں
ہم کیوں نہ کبیدہ خاطر ہوں جب حاملِ قرآں لڑتے ہیں
فرمائے خدا ہی رحم ان پر آپس میں مسلماں لڑتے ہیں
جب ایک ہی اپنا قبلہ ہے جب ایک ہی چاہِ زمزم ہے
جب ایک ہی اپنا قرآں ہے جب ایک ہی اپنا پرچم ہے
جب ایک نبیؐ کے آگے ہی سر اپنی اطاعت کا خم ہے
جب ایک ہے خالق ایک ہے دیں پھر کیوں یہ نزاعِ باہم ہے
جب ایک نظامِ برحق پر ایمان ہمارا کامل ہے
جب ختمِ رسل کے صدقہ میں دستورِ شریعت حاصل ہے
جب ایک سفر کے راہی ہیں جب ایک ہی اپنی منزل ہے
ایسے میں نگاہِ مسلم کیوں حیراں ہوں کہ سوئے باطل ہے
تزئینِ چمن کو ساماں سب ہم شان کے شایاں رکھتے ہیں
ہم سرو صنوبر نرگسِ شہلا سوسن و ریحاں رکھتے ہیں
ہم سبزۂ اخضر لالہ و نسریں سنبلِ پیچاں رکھتے ہیں
ہم قمری و طوطی بلبلِ شیدا مرغِ خوش الحاں رکھتے ہیں
کچھ حرص و ہوس کے بندے ہیں جو اور ارادہ رکھتے ہیں
کچھ اور ہی منزل ہے ان کی کچھ اور ہی جادہ رکھتے ہیں
وہ جامِ تعقل میں اپنے الحاد کا بادہ رکھتے ہیں
خود بہکے ہیں اور بہکائیں انہیں جو فطرتِ سادہ رکھتے ہیں
اربابِ ہوس وہ رہتے ہیں خسخانوں میں ایوانوں میں
مشروب مفرح پیتے ہیں کھاتے ہیں مرغن کھانوں میں
تفریح کریں وہ کلبوں میں جم خانوں میں میخانوں میں
دل دور حقیقت سے ان کے کھوئے ہوئے وہ افسانوں میں
آگاہ نہیں تم اے لوگوں ان کی شطرنجی چالوں سے
تم کھاتے آئے ان کے ہاتھوں ماتیں اکتیس سالوں سے
ہے بغض انہیں للّٰہی کچھ اسلام کے سب متوالوں سے
پہچانو لوگو دور رہو ابلیس کے ان دلالوں سے
ہے عرضِ نظرؔ احساسِ زیاں خدامِ شہِ لولاک کریں
جو دیں کے تقاضے ہیں ان کا للہ ذرا ادراک کریں
ظلمت کا گریباں تار کریں الحاد کا پردہ چاک کریں
فی الاصل بنا دیں پاکستاں یوں خاکِ وطن کو پاک کریں
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
تنظیمِ گلستاں کی خاطر کیوں اہلِ گلستاں لڑتے ہیں
ہے بات خلافِ ایماں یہ کیوں صاحبِ ایماں لڑتے ہیں
ہم کیوں نہ کبیدہ خاطر ہوں جب حاملِ قرآں لڑتے ہیں
فرمائے خدا ہی رحم ان پر آپس میں مسلماں لڑتے ہیں
جب ایک ہی اپنا قبلہ ہے جب ایک ہی چاہِ زمزم ہے
جب ایک ہی اپنا قرآں ہے جب ایک ہی اپنا پرچم ہے
جب ایک نبیؐ کے آگے ہی سر اپنی اطاعت کا خم ہے
جب ایک ہے خالق ایک ہے دیں پھر کیوں یہ نزاعِ باہم ہے
جب ایک نظامِ برحق پر ایمان ہمارا کامل ہے
جب ختمِ رسل کے صدقہ میں دستورِ شریعت حاصل ہے
جب ایک سفر کے راہی ہیں جب ایک ہی اپنی منزل ہے
ایسے میں نگاہِ مسلم کیوں حیراں ہوں کہ سوئے باطل ہے
تزئینِ چمن کو ساماں سب ہم شان کے شایاں رکھتے ہیں
ہم سرو صنوبر نرگسِ شہلا سوسن و ریحاں رکھتے ہیں
ہم سبزۂ اخضر لالہ و نسریں سنبلِ پیچاں رکھتے ہیں
ہم قمری و طوطی بلبلِ شیدا مرغِ خوش الحاں رکھتے ہیں
کچھ حرص و ہوس کے بندے ہیں جو اور ارادہ رکھتے ہیں
کچھ اور ہی منزل ہے ان کی کچھ اور ہی جادہ رکھتے ہیں
وہ جامِ تعقل میں اپنے الحاد کا بادہ رکھتے ہیں
خود بہکے ہیں اور بہکائیں انہیں جو فطرتِ سادہ رکھتے ہیں
اربابِ ہوس وہ رہتے ہیں خسخانوں میں ایوانوں میں
مشروب مفرح پیتے ہیں کھاتے ہیں مرغن کھانوں میں
تفریح کریں وہ کلبوں میں جم خانوں میں میخانوں میں
دل دور حقیقت سے ان کے کھوئے ہوئے وہ افسانوں میں
آگاہ نہیں تم اے لوگوں ان کی شطرنجی چالوں سے
تم کھاتے آئے ان کے ہاتھوں ماتیں اکتیس سالوں سے
ہے بغض انہیں للّٰہی کچھ اسلام کے سب متوالوں سے
پہچانو لوگو دور رہو ابلیس کے ان دلالوں سے
ہے عرضِ نظرؔ احساسِ زیاں خدامِ شہِ لولاک کریں
جو دیں کے تقاضے ہیں ان کا للہ ذرا ادراک کریں
ظلمت کا گریباں تار کریں الحاد کا پردہ چاک کریں
فی الاصل بنا دیں پاکستاں یوں خاکِ وطن کو پاک کریں
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی