نظم (تہذیب اور محبت)

جناب ساحر لدھیانوی صاحب کی ایک نظم خانہ آبادی سے متاثرہ​
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

طرب کی ہے کہیں محفل سجی اور شادیانے ہیں
کسی کی آنکھ میں آنسو ہیں دل میں شور برپا ہے
کسی کی زندگی میں تیرگی چھائی ہے دل میں بھی
کہیں محفل میں رنگ و نور کا سیلاب آیا ہے
گریباں چاک پھرتا ہے گھُٹن دل میں لیے کوئی
کہیں ہیں ریشمی آنچل سماں خوشبو سے مہکا ہے
دلوں کو توڑ کر بندھن حیاتِ نو بنانے پر
محبت غمزدہ ہے تو تمدن مسکرایا ہے
کسی کو مل گئی منزل تری قربت کی بن مانگے
تری چاہت کی راہوں میں محبت آبلہ پا ہے
محبت سر نگوں ہے۔ ہے کھڑی تہذیب خندہ زن
کِیا تہذیب نے اب تک محبت کو ہی رسوا ہے
 

الف عین

لائبریرین
جناب ساحر لدھیانوی صاحب کی ایک نظم خانہ آبادی سے متاثرہ​
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

طرب کی ہے کہیں محفل سجی اور شادیانے ہیں
کسی کی آنکھ میں آنسو ہیں دل میں شور برپا ہے
کسی کی زندگی میں تیرگی چھائی ہے دل میں بھی
پہلا شعر درست، تیسرے مصرعے میں البتہ دل میں بھی کا ٹکڑا بے ربط لگ رہا ہے صرف زندگی کی بات کی جائے یا دل کی
کہیں محفل میں رنگ و نور کا سیلاب آیا ہے

گریباں چاک پھرتا ہے گھُٹن دل میں لیے کوئی
کہیں ہیں ریشمی آنچل سماں خوشبو سے مہکا ہے
یہ مکمل بے ربط ہو گیا
دلوں کو توڑ کر بندھن حیاتِ نو بنانے پر
محبت غمزدہ ہے تو تمدن مسکرایا ہے
نظم کے عنوان اور یہاں تمدن کا تعلق سمجھ میں نہیں آتا، شاید معاشرہ بہتر لفظ ہوتا جو محبت کرنے والوں کے پیچ ٹانگ اڑانے کے لئے مشہور ہے
کسی کو مل گئی منزل تری قربت کی بن مانگے
تری چاہت کی راہوں میں محبت آبلہ پا ہے
یہ بھی بے ربط لگ رہا ہے، تضاد دکھایا جائے تو یکساں عناصر میں تضاد دکھایا جائے، جس طرح اوپر تیرگی اور نور کا سیلاب استعمال کیا گیا ہے
محبت سر نگوں ہے۔ ہے کھڑی تہذیب خندہ زن
کِیا تہذیب نے اب تک محبت کو ہی رسوا ہے
معاشرہ؟
 
طرب کی ہے کہیں محفل سجی اور شادیانے ہیں
کسی کی آنکھ میں آنسو ہیں دل میں شور برپا ہے
کسی کی زندگی میں تیرگی چھائی ہے دل میں بھی
کہیں محفل میں رنگ و نور کا سیلاب آیا ہے

پہلا شعر درست، تیسرے مصرعے میں البتہ دل میں بھی کا ٹکڑا بے ربط لگ رہا ہے صرف زندگی کی بات کی جائے یا دل کی
کسی کی زندگی میں ہر طرف چھایا اندھیرا ہے

محترم سر الف عین صاحب سے نہایت ادب کے ساتھ :
جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا گیا ہے کہ یہ نظم جناب ساحر لدھیانوی صاحب کی ایک نظم خانہ آبادی سے متاثر ہو کر لکھی گئی ہے اسی مضمون کو نئے انداز سے پیش کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ مہذب معاشرے کی معاشرتی اقدار (جنہیں تہذیب اور تمدن کا نام بھی دیا جاتا ہے) کے نام پر جہاں دو پیار کرنے والے دلوں کے جذبات کا خون کرکے شادی کا بندھن بنایا جاتا ہے تو وہیں دوسری طرف ان پیار کرنے والے دلوں پر کیا بیت رہی ہوتی ہے۔ یہی اس نظم میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
گریباں چاک پھرتا ہے گھُٹن دل میں لیے کوئی
کہیں ہیں ریشمی آنچل سماں خوشبو سے مہکا ہے

یہ مکمل بے ربط ہو گیا
ایک طرف ریشمی آنچل اور خوشبوئیں (تہذیبی روایات کے مطابق شادی) اور دوسری طرف گریباں چاک اور دل میں گھٹن
دلوں کو توڑ کر بندھن حیاتِ نو بنانے پر
محبت غمزدہ ہے تو تمدن مسکرایا ہے

نظم کے عنوان اور یہاں تمدن کا تعلق سمجھ میں نہیں آتا، شاید معاشرہ بہتر لفظ ہوتا جو محبت کرنے والوں کے پیچ ٹانگ اڑانے کے لئے مشہور ہے
معاشرے کی بجائے اس کی روایات کا ذکر کرنا مقصود تھا
کسی کو مل گئی منزل تری قربت کی بن مانگے
تری چاہت کی راہوں میں محبت آبلہ پا ہے

یہ بھی بے ربط لگ رہا ہے، تضاد دکھایا جائے تو یکساں عناصر میں تضاد دکھایا جائے، جس طرح اوپر تیرگی اور نور کا سیلاب استعمال کیا گیا ہے
تہذیبی روایات نے محبوب کی قربت کسی کو بن مانگے شادی کے نام پر عطا کردی اور محبت کرنے والے کا مقدر بنا صرف آبلہ پائی
محبت سر نگوں ہے۔ ہے کھڑی تہذیب خندہ زن
کِیا تہذیب نے اب تک محبت کو ہی رسوا ہے

معاشرہ؟
یہاں بھی مہذب معاشرے کی تہذیبی روایات کا ذکر ہے۔
 
Top