کاشفی
محفلین
نظم
جئے ہند
(عادل رشید - ابو الفضل انکلیو - جامعہ نگر نئی دہلی، ہندوستان)
چلو پیغام دیں اہلِ وطن کو
کہ ہم شاداب رکھیں اِس چمن کو
نہ ہم رسوا کریں گنگ و جمن کو
کریں ماحول پیدا دوستی کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
قسم کھائیں چلو امن و اماں کی
بڑھائیں آب و تاب اِس گلستاں کی
ہمیں تقدیر ہیں ہندوستاں کی
ہنر ہم نے دیا ہے سروری کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
ذرا سوچیں کہ اب گجرات کیوں ہو
کوئی دھوکا کسی کے سات کیوں ہو
اُجالوں کی کبھی بھی مات کیوں ہو
تراشیں جسم پھر سے روشنی کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
نہ اکشر دھام، دلّی، مالے گاؤں
نہ دہشت گردی اب پھیلائے پاؤں
وطن میں پیار کی ہو ٹھنڈی چھاؤں
نہ ہو دشمن یہاں کوئی کسی کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
ہوائیں سرد ہوں کشمیر کی اب
نہ تلواروں کی اور شمشیر کی اب
ضرورت ہے زبانِ میر کی اب
تقاضہ بھی یہی ہے شاعری کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
محبت کا جہاں آباد رکھیں
نہ کڑواہٹ کو ہرگز یاد رکھیں
نئے رشتوں کی ہم بنیاد رکھیں
بڑھائیں ہاتھ ہم سب دوستی کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
جئے ہند
(عادل رشید - ابو الفضل انکلیو - جامعہ نگر نئی دہلی، ہندوستان)
چلو پیغام دیں اہلِ وطن کو
کہ ہم شاداب رکھیں اِس چمن کو
نہ ہم رسوا کریں گنگ و جمن کو
کریں ماحول پیدا دوستی کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
قسم کھائیں چلو امن و اماں کی
بڑھائیں آب و تاب اِس گلستاں کی
ہمیں تقدیر ہیں ہندوستاں کی
ہنر ہم نے دیا ہے سروری کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
ذرا سوچیں کہ اب گجرات کیوں ہو
کوئی دھوکا کسی کے سات کیوں ہو
اُجالوں کی کبھی بھی مات کیوں ہو
تراشیں جسم پھر سے روشنی کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
نہ اکشر دھام، دلّی، مالے گاؤں
نہ دہشت گردی اب پھیلائے پاؤں
وطن میں پیار کی ہو ٹھنڈی چھاؤں
نہ ہو دشمن یہاں کوئی کسی کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
ہوائیں سرد ہوں کشمیر کی اب
نہ تلواروں کی اور شمشیر کی اب
ضرورت ہے زبانِ میر کی اب
تقاضہ بھی یہی ہے شاعری کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا
محبت کا جہاں آباد رکھیں
نہ کڑواہٹ کو ہرگز یاد رکھیں
نئے رشتوں کی ہم بنیاد رکھیں
بڑھائیں ہاتھ ہم سب دوستی کا
یہی مقصد بنا لیں زندگی کا