فرحان محمد خان
محفلین
جانِ من
جانِ من مجھ سے بجا ہے یہ شکایت تیری
کہ مرے شعر میں ماضی کا وہ انداز نہیں
اے مجھے حافظؔ و خیّام بنانے والی
اب مرے شعر میں سر مستیِ شیراز نہیں
جو تری روح کے نغموں کو جگا دیتی ہے
اب مرے پاس وہ رعنائیِ آواز نہیں
جو ہم آہنگ ترے زمزمۂ ناز سے تھا
اب مرے بس میں وہ آہنگ فسوں ساز نہیں
کاش تو میری خموشی کی صدا سُن سکتی
نغمۂ غم کے لئے حاجتِ آواز نہیں
آج دنیا کو ضرورت ہی نہیں خوابوں کی
آج دنیا میں کہیں خواب گۂ ناز نہیں
ہے کوئی اور ہی قوت جو بدلتی ہے ہمیں
وقت اور یہ فلک شعبدہ پرداز نہیں
جانِ من مجھ سے بجا ہے یہ شکایت تیری
کہ مرے شعر میں ماضی کا وہ انداز نہیں
اے مجھے حافظؔ و خیّام بنانے والی
اب مرے شعر میں سر مستیِ شیراز نہیں
جو تری روح کے نغموں کو جگا دیتی ہے
اب مرے پاس وہ رعنائیِ آواز نہیں
جو ہم آہنگ ترے زمزمۂ ناز سے تھا
اب مرے بس میں وہ آہنگ فسوں ساز نہیں
کاش تو میری خموشی کی صدا سُن سکتی
نغمۂ غم کے لئے حاجتِ آواز نہیں
آج دنیا کو ضرورت ہی نہیں خوابوں کی
آج دنیا میں کہیں خواب گۂ ناز نہیں
ہے کوئی اور ہی قوت جو بدلتی ہے ہمیں
وقت اور یہ فلک شعبدہ پرداز نہیں
رئیسؔ امروہوی