جاں نثار اختر نظم : حسیں آگ - جاں نثار اختر

حسیں آگ
تیری پیشانیِ رنگیں میں جھلکتی ہے جو آگ
تیرے رخسار کے پھولوں میں دمکتی ہے جو آگ
تیرے سینے میں جوانی کی دہکتی ہے جو آگ
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دیدے

تیری آنکھوں میں فروزاں ہیں جوانی کے شرار
لبِ گلرنگ پہ رقصاں ہیں جوانی کے شرار
تیری ہر سانس میں غلطاں ہیں جوانی کے شرار
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دیدے

ہر ادا میں یہ جواں آتشِ جذبات کی رو
یہ مچلتے ہوئے شعلے ، یہ تڑپتی ہوئی لو
آ ، مری روح پہ بھی ڈال دے اپنا پرتو
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دیدے

کتنی محروم نگاہیں ہیں تجھے کیا معلوم
کتنی ترسی ہوئی بانہیں ہیں تجھے کیا معلوم
کیسی دُھندلی مری راہیں ہیں تجھے کیا معلوم
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دیدے

آ کہ ظلمت میں کوئی نور کا ساماں کر لوں
اپنے تاریک شبستاں کو شبستاں کر لوں
اس اندھیرے میں کوئی شمع فروزاں کر لوں
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دیدے

بارِ ظلمات سے سینے کی فضا ہے بوجھل
نہ کوئی سازِ تمنا نہ کوئی سوزِ عمل
آ کہ مشعل سے تری میں بھی جلالوں مشعل
زندگی کی یہ حسیں آگ مجھے بھی دیدے
جاں نثار اختر
 
Top