فرحان محمد خان
محفلین
خانہ بدوش
شام کے سورج کی رنگت پڑچکی ہے زرد سی
اُڑ رہی ہے اک طرف میدان میں کچھ گرد سی
بجھ چکی ہے آسماں پر ڈوبتے سورج کی آگ
ہر بگولا گا رہا ہے خانہ ویرانی کا راگ
دشت کے خاموش کچے راستوں کے درمیاں
قافلہ خانہ بدوشوں کا ہے اک جانب رواں
اُن کو کیا معلوم اس صحرا نوردی کا عذاب
جن کی آنکھیں دیکھتی ہوں راہ میں منزل کے خواب
تیرگی میں رات کی میدان جب کھو جائے گا
ختم ان صحرا نوردوں کا سفر ہو جائے گا
تو نے دیکھا ہے کبھی خانہ بدوشوں کا جہاں
شہر سے کچھ دور پر ٹھہرا ہوا یہ کارواں
دور تک میدان میں وہ تنگ ڈیروں کی قطار
وہ زمیں کی گود میں زندہ غریبوں کے مزار
وہ فسردہ رنگ پتے خشک مٹی زرد گھانس
جا بجا وہ ٹاٹ سے نکلے ہوئے خیموں کے بانس
دھوپ میں پھیلی ہوئی وہ زرد بھیکی سرکیاں
ہر طرف بکھرے ہوئے وہ سوپ 'چھنیکے ' رسیاں
سامنے گدلا سا اک تالاب کچھ سوکھے ببول
دُور اک ٹیلے پہ مرجھائے ہوئے بدرنگ پھول
دو پہر کے سخت تیور ، گرم جھونکے ، لوکا زور
وہ کبھی کوؤں کی چیخیں وہ کبھی کتوں کا شور
رات کو ملتا ہے جب دن کی مشقت سے فراغ
جب اندھیرے جھونپڑوں میں ٹمٹماتے ہیں چراغ
تالیوں سے گونچ اُٹھتی ہے فضا ہر بول پر
کوئی لڑکی ناچنے لگتی ہے بھاری ڈھول پر
تال میں جیسے کٹورا چاند پر جیسے چکور
چھاؤں میں تاروں کی ناچے جس طرح جنگل کا مور
جیسے صحرا میں بگولا جیسے پانی میں بھنور
گھومتی ہو جس طرح اک تیز پھرکی ہاتھ پر
عشق ان کا بے تکلف حسن ان کا بے نقاب
مفلسی کی گود میں آزاد ہے ان کا شباب
یہ زمانہ بھر کے ٹھکرائے ہوئے خانہ بدوش
کم سے کم رکھتے تو ہیں سینے میں آزادی کا جوش
خاک کے سینے میں پنہاں ہیں دبی چنگاریاں
جاگ اُٹھیں گی کبھی سوئی ہوئی خودداریاں
کانپ جائے گا کبھی قصرِ تمدن کا چراغ
موم کی مانند پگھلے گا امارت کا دماغ
یہ زمیں ہل جائے گی یہ آسماں ہل جائے گا
اک نیا پرچم ہوا کے دوش پر لہرائے گا
شام کے سورج کی رنگت پڑچکی ہے زرد سی
اُڑ رہی ہے اک طرف میدان میں کچھ گرد سی
بجھ چکی ہے آسماں پر ڈوبتے سورج کی آگ
ہر بگولا گا رہا ہے خانہ ویرانی کا راگ
دشت کے خاموش کچے راستوں کے درمیاں
قافلہ خانہ بدوشوں کا ہے اک جانب رواں
اُن کو کیا معلوم اس صحرا نوردی کا عذاب
جن کی آنکھیں دیکھتی ہوں راہ میں منزل کے خواب
تیرگی میں رات کی میدان جب کھو جائے گا
ختم ان صحرا نوردوں کا سفر ہو جائے گا
تو نے دیکھا ہے کبھی خانہ بدوشوں کا جہاں
شہر سے کچھ دور پر ٹھہرا ہوا یہ کارواں
دور تک میدان میں وہ تنگ ڈیروں کی قطار
وہ زمیں کی گود میں زندہ غریبوں کے مزار
وہ فسردہ رنگ پتے خشک مٹی زرد گھانس
جا بجا وہ ٹاٹ سے نکلے ہوئے خیموں کے بانس
دھوپ میں پھیلی ہوئی وہ زرد بھیکی سرکیاں
ہر طرف بکھرے ہوئے وہ سوپ 'چھنیکے ' رسیاں
سامنے گدلا سا اک تالاب کچھ سوکھے ببول
دُور اک ٹیلے پہ مرجھائے ہوئے بدرنگ پھول
دو پہر کے سخت تیور ، گرم جھونکے ، لوکا زور
وہ کبھی کوؤں کی چیخیں وہ کبھی کتوں کا شور
رات کو ملتا ہے جب دن کی مشقت سے فراغ
جب اندھیرے جھونپڑوں میں ٹمٹماتے ہیں چراغ
تالیوں سے گونچ اُٹھتی ہے فضا ہر بول پر
کوئی لڑکی ناچنے لگتی ہے بھاری ڈھول پر
تال میں جیسے کٹورا چاند پر جیسے چکور
چھاؤں میں تاروں کی ناچے جس طرح جنگل کا مور
جیسے صحرا میں بگولا جیسے پانی میں بھنور
گھومتی ہو جس طرح اک تیز پھرکی ہاتھ پر
عشق ان کا بے تکلف حسن ان کا بے نقاب
مفلسی کی گود میں آزاد ہے ان کا شباب
یہ زمانہ بھر کے ٹھکرائے ہوئے خانہ بدوش
کم سے کم رکھتے تو ہیں سینے میں آزادی کا جوش
خاک کے سینے میں پنہاں ہیں دبی چنگاریاں
جاگ اُٹھیں گی کبھی سوئی ہوئی خودداریاں
کانپ جائے گا کبھی قصرِ تمدن کا چراغ
موم کی مانند پگھلے گا امارت کا دماغ
یہ زمیں ہل جائے گی یہ آسماں ہل جائے گا
اک نیا پرچم ہوا کے دوش پر لہرائے گا
جاں نثار اختر