شکیب جلالی نظم : خانہ بدوش - شکیب جلالی

خانہ بدوش
یہ جنگل کی آہو یہ صحرا کے راہی
تصنّح کے باغی دلوں کے سپاہی
فقیری لبادے تو اندازِ شاہی
یہ اکھڑ ، یہ انمول یہ بانگے سجیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

مصائب سے کھیلے حوادث کے پالے
ہیں روشن جبیں ، گو ہیں پاؤں میں چھالے
یہ پیتے ہیں ہنس ہنس کے تلخی کے پیالے
کہ جیسے کوئی مَدھ بھرا جام پی لے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے


طلب آشیاں کی نہ فکرِ قفس ہے
نہ دولت کی پروا نہ زر کی ہوس ہے
زباں میں گھلاوٹ نگاہوں میں رس ہے
ہیں جینے کے انداز میٹھے رسیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

زمانے کو چھوڑا صداقت نہ کھوئی
محبت ہی کاٹی محبت ہی بوئی
نہ حاکم ہے کوئی نہ محکوم کوئی
اُصولوں کے بندھن مگر ڈھیلے ڈھیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

ہے پھولوں کا بستر کبھی بَن میں ڈیرا
نہ تفریق کوئی ، نہ تیرا نہ میرا
جہاں سب نے چاہا وہیں پر بسیرا
وہ صحرا کے گُل بن ، وہ وادی کے ٹیلے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

ہر اک اپنی اپنی جگہ پر مگن ہے
نہ دیوارِ زنداں نہ حدِ چمن ہے
یہاں بھی وطن ہے وہاں بھی وطن ہے
کوئی ان سے تعلیمِ آوارگی لے
یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے
شکیبؔ جلالی
اکتوبر 1953ء
 
آخری تدوین:
Top