مہدی نقوی حجاز
محفلین
روح کا پتھر
مدتیں ہو گئیں وہ چھوڑ گیا ہے لیکن
اس کی یادوں کے سہارے سے میں زندہ ہوں ابھی
اور اس ڈھنگ سے زندہ ہوں کہ پوچھو نہ کوئی
سانس لیتا ہوں!
سانس لیتا ہوں، تو ہر سانس میں خوشبو اس کی
نیند آتی ہے!
نیند آتی ہے، تو ہر خواب میں چہرہ اس کا
بات کرتا ہوں!
بات کرتا ہوں، تو ہر بات میں انداز اس کا
شعر کہتا ہوں!
شعر کہتا ہوں، تو ہر شعر میں تعریف اس کی
گنگناتا ہوں!
گنگناتا ہوں، تو ہر طرز میں نغمے اس کے
یاد آتے ہیں!
یاد آتے ہیں، تو کچھ وصل کے لمحے اس کے
اور زندہ ہوں!
اور زندہ ہوں، تو اس ڈھنگ سے زندہ ہوں کہ
کوئی اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا
اور مری روح انہیں یادوں کا مجموعہ ہے
عکس میں جس کے میں پتھر کا بنا لگتا ہوں
اور پتھر میں کوئی روح نہیں ہوتی ہے!
مدتیں ہو گئیں وہ چھوڑ گیا ہے لیکن
اس کی یادوں کے سہارے سے میں زندہ ہوں ابھی
اور اس ڈھنگ سے زندہ ہوں کہ پوچھو نہ کوئی
سانس لیتا ہوں!
سانس لیتا ہوں، تو ہر سانس میں خوشبو اس کی
نیند آتی ہے!
نیند آتی ہے، تو ہر خواب میں چہرہ اس کا
بات کرتا ہوں!
بات کرتا ہوں، تو ہر بات میں انداز اس کا
شعر کہتا ہوں!
شعر کہتا ہوں، تو ہر شعر میں تعریف اس کی
گنگناتا ہوں!
گنگناتا ہوں، تو ہر طرز میں نغمے اس کے
یاد آتے ہیں!
یاد آتے ہیں، تو کچھ وصل کے لمحے اس کے
اور زندہ ہوں!
اور زندہ ہوں، تو اس ڈھنگ سے زندہ ہوں کہ
کوئی اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا
اور مری روح انہیں یادوں کا مجموعہ ہے
عکس میں جس کے میں پتھر کا بنا لگتا ہوں
اور پتھر میں کوئی روح نہیں ہوتی ہے!