نظم "روح کا پتھر"

روح کا پتھر

مدتیں ہو گئیں وہ چھوڑ گیا ہے لیکن
اس کی یادوں کے سہارے سے میں زندہ ہوں ابھی
اور اس ڈھنگ سے زندہ ہوں کہ پوچھو نہ کوئی
سانس لیتا ہوں!
سانس لیتا ہوں، تو ہر سانس میں خوشبو اس کی
نیند آتی ہے!
نیند آتی ہے، تو ہر خواب میں چہرہ اس کا
بات کرتا ہوں!
بات کرتا ہوں، تو ہر بات میں انداز اس کا
شعر کہتا ہوں!
شعر کہتا ہوں، تو ہر شعر میں تعریف اس کی
گنگناتا ہوں!
گنگناتا ہوں، تو ہر طرز میں نغمے اس کے
یاد آتے ہیں!
یاد آتے ہیں، تو کچھ وصل کے لمحے اس کے
اور زندہ ہوں!
اور زندہ ہوں، تو اس ڈھنگ سے زندہ ہوں کہ
کوئی اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا
اور مری روح انہیں یادوں کا مجموعہ ہے
عکس میں جس کے میں پتھر کا بنا لگتا ہوں
اور پتھر میں کوئی روح نہیں ہوتی ہے!
 

الف عین

لائبریرین
واہ بہت خوب۔ اگرچہ آپ کی شاعری کے تحت ہے، لیکن دو باتوں کو کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ایک تو وہی ’کہ‘ کا غلط استعمال
اور دوسرے
یادوں کے سہارے سے​
میں ’سے‘ کی ضرورت نہیں، اس کے بغیر بہتر ہے
یادوں کے سہارے ابھی زندہ ہوں میں​
کیا جا سکتا ہے​
 
واہ بہت خوب۔ اگرچہ آپ کی شاعری کے تحت ہے، لیکن دو باتوں کو کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ایک تو وہی ’کہ‘ کا غلط استعمال
اور دوسرے
یادوں کے سہارے سے​
میں ’سے‘ کی ضرورت نہیں، اس کے بغیر بہتر ہے
یادوں کے سہارے ابھی زندہ ہوں میں​
کیا جا سکتا ہے​
بہت شکریہ استادِ محترم، تنقید کے لیے بھی اور تعریف کے لیے بھی۔
جی اس طرف میرا دھیان نہیں تھا۔ "کہ" کو میں کوشش کر کے بدل دیتا ہوں۔
اور "سے" کے بارے بھی آپ کا خیال درست ہے۔ ٹھیک کیے دیتا ہوں
مکرر شکریہ!
 
https://www.facebook.com/photo.php?v=1375179296031808&set=p.1375179296031808&type=2&theater
دو دن پہلے ہمارے لنگوٹیا یار "میر راجن علی سید" ہمارے دروازے پر آ دھمکے۔ گھستے ہی چائے، سگرٹ اور نئے کلام کی فرمائش کر دی۔ انہیں نے ہماری یہ نظم رکورڈ کر لی تھی جو اب "فیس بک" پر وہ ارسال کر چکے ہیں۔ آپ بھی ملاحظہ فرما لیجے!
 
Top