فرحان محمد خان
محفلین
زندانی
تم کو دنیا نہیں دے گی غم و آلام کے جام
اک تبسم سے سنبھالے ہوئے دنیا کا نظام
روک سکتی ہو جنوں خیز ہواؤں کا خرام
تم سمجھتی ہو کہ آسان ہے جینا اپنا
سیل دریا سے نہ گزرے گا سفینہ اپنا
یہ جو کاکل میں مہک ہے یہ جو آنکھوں میں ہے رنگ
تیز لَو دیتی ہوئی دل کی یہ دھڑکن یہ اُمنگ
سیکھ لے دیدہ و دانستہ نہ فریاد کا ڈھنگ
تم فقط پیار کی باتوں کو سمجھتی ہو ابھی
شمع کے نام سے راتوں کو سمجھتی ہو ابھی
ابھی اُمید کی شمعوں سے فروزاں ہے حیات
ابھی ٹھہری ہوئی اک موجِ چراغاں ہے حیات
ابھی مہتاب ہے ، وادی ہے ، خیاباں ہے حیات
پھول برسا کے گزرتی ہیں ہوائیں تم پر
مہرباں ہیں ابھی دنیا کی فضائیں تم پر
تم سمجھتی ہو کہ یہ نورِ شبستاں ہے بہت
نازِ ابرو ہے بہت جنبشِ مژگاں ہے بہت
کوئی طوفاں ہو نظر میں تو یہ طوفاں ہے بہت
اک حسیں خواب میں دنیا کا جنوں گم ہے ابھی
تم ہو اور شام و سحر ایک تبسم ہے ابھی
یہ نظر اب بھی جو اٹھتی ہے ستاروں کی طرف
رنگِ دنیا لیے گردوں کے نظاروں کی طرف
دُور ہو جائے گی گر تیرہ غباروں کی طرف
ان غباروں میں کئی بھوت نظر آئیں گے
دل کا در توڑ کے کمبخت یہ در آئیں گے
زہزنوں کا یہ بسیرا ہے جہاں ہم تم ہیں
ہر طرف ایک اندھیرا ہے جہاں ہم تم ہیں
اور بہت دُور سویرا ہے جہاں ہم تم ہیں
یہ تبسّم کی سپر کام نہیں آسکتی
راہ پر گردشِ ایام نہیں آ سکتی
کسی طوفاں کے اشاروں کی طرف بہتا ہے
زخم سے خون کے دھاروں کی طرف بہتا ہے
وقت لاوے کے شراروں کی طرف بہتا ہے
اور تم گیت کی طالب مہ و انجم کی اسیر
اک سلگتی ہوئی دنیا میں تبسم کی اسیر
بے کسوں نے تمھیں جھنجھلا کے پکارا ہی نہیں
موت کی وادیِ گریاں میں اُتارا ہی نہیں
تم کسی ڈوبتی کشتی کا سہارا ہی نہیں
خیر ہے فتنہِ ہنگامِ جزا سمجھو گی
تم غمِ عالمِ خوں ریز کو کیا سمجھو گی
ہو گیا وعدہ وفا ، بات ہوئی، گھر جاؤ
سعی ہم رنگیِ جذبات ہوئی ،گھر جاؤ
جاؤ گھر جاؤ ، بہت رات ہوئی ،گھر جاؤ
اس افق پر ہی شبِ تار کو سحر کرنا ہے
اس سحر ہو کو محبت کی سحر کرنا ہے
تم کو دنیا نہیں دے گی غم و آلام کے جام
اک تبسم سے سنبھالے ہوئے دنیا کا نظام
روک سکتی ہو جنوں خیز ہواؤں کا خرام
تم سمجھتی ہو کہ آسان ہے جینا اپنا
سیل دریا سے نہ گزرے گا سفینہ اپنا
یہ جو کاکل میں مہک ہے یہ جو آنکھوں میں ہے رنگ
تیز لَو دیتی ہوئی دل کی یہ دھڑکن یہ اُمنگ
سیکھ لے دیدہ و دانستہ نہ فریاد کا ڈھنگ
تم فقط پیار کی باتوں کو سمجھتی ہو ابھی
شمع کے نام سے راتوں کو سمجھتی ہو ابھی
ابھی اُمید کی شمعوں سے فروزاں ہے حیات
ابھی ٹھہری ہوئی اک موجِ چراغاں ہے حیات
ابھی مہتاب ہے ، وادی ہے ، خیاباں ہے حیات
پھول برسا کے گزرتی ہیں ہوائیں تم پر
مہرباں ہیں ابھی دنیا کی فضائیں تم پر
تم سمجھتی ہو کہ یہ نورِ شبستاں ہے بہت
نازِ ابرو ہے بہت جنبشِ مژگاں ہے بہت
کوئی طوفاں ہو نظر میں تو یہ طوفاں ہے بہت
اک حسیں خواب میں دنیا کا جنوں گم ہے ابھی
تم ہو اور شام و سحر ایک تبسم ہے ابھی
یہ نظر اب بھی جو اٹھتی ہے ستاروں کی طرف
رنگِ دنیا لیے گردوں کے نظاروں کی طرف
دُور ہو جائے گی گر تیرہ غباروں کی طرف
ان غباروں میں کئی بھوت نظر آئیں گے
دل کا در توڑ کے کمبخت یہ در آئیں گے
زہزنوں کا یہ بسیرا ہے جہاں ہم تم ہیں
ہر طرف ایک اندھیرا ہے جہاں ہم تم ہیں
اور بہت دُور سویرا ہے جہاں ہم تم ہیں
یہ تبسّم کی سپر کام نہیں آسکتی
راہ پر گردشِ ایام نہیں آ سکتی
کسی طوفاں کے اشاروں کی طرف بہتا ہے
زخم سے خون کے دھاروں کی طرف بہتا ہے
وقت لاوے کے شراروں کی طرف بہتا ہے
اور تم گیت کی طالب مہ و انجم کی اسیر
اک سلگتی ہوئی دنیا میں تبسم کی اسیر
بے کسوں نے تمھیں جھنجھلا کے پکارا ہی نہیں
موت کی وادیِ گریاں میں اُتارا ہی نہیں
تم کسی ڈوبتی کشتی کا سہارا ہی نہیں
خیر ہے فتنہِ ہنگامِ جزا سمجھو گی
تم غمِ عالمِ خوں ریز کو کیا سمجھو گی
ہو گیا وعدہ وفا ، بات ہوئی، گھر جاؤ
سعی ہم رنگیِ جذبات ہوئی ،گھر جاؤ
جاؤ گھر جاؤ ، بہت رات ہوئی ،گھر جاؤ
اس افق پر ہی شبِ تار کو سحر کرنا ہے
اس سحر ہو کو محبت کی سحر کرنا ہے
عزیز حامد مدنی
1942ء
1942ء