پیاسا صحرا
محفلین
زندگی ، اے زندگی
خرقہ پوش و پا بہ گل
میں کھڑا ہوں، تیرے در پر ، زندگی
ملتجی و مضمحل
خرقہ پوش و پا بہ گل
اے جہانِ خار و خس کی روشنی
زندگی ، اے زندگی
میں ترے در پر چمکتی چلمنوں کی اوٹ سے
سن رہا ہوں قہقہوں کے دھمیے دھیمے زمزمے
گرم ، گہری ، گفتگو کے سلسلے
منقل آتش بجاں کے متصل،
اور ادھر باہر گلی میں، خرقہ پوش و پا بہ گل
میں کہ اک لمحے کا دل
جس کی ہر دھڑکن میں گونجے دو جہاں کی تیرگی
زندگی ، اے زندگی
کتنے سائے محوِ رقص
تیرے در کے پردہء گلفام پر
کتنے سائے، کتنے عکس
کتنے پیکر محوِ رقص
اور اک تو کہنیاں ٹیکے خم ایام پر
ہونٹ رکھ کر جام پر
سن رہی ہے ناچتی صدیوں کا آہنگِ قدم
جاوداں خوشیوں کی بجتی گتکڑی کے زیر و بم
آنچلوں کی جھم جھماہٹ، پائلوں کی چھم چھم
اس طرف، باہر، سر کوئے عدم
ایک طوفاں، ایک سیل بے اماں
ڈوبنے کو ہیں مرے شام و سحر کی کشتیاں
اے نگارِ دل ستاں
اپنی نٹ کھٹ انکھڑیوں سے میری جانب جھانک بھی
زندگی، اے زندگی
22/5/1953
مجید امجد
خرقہ پوش و پا بہ گل
میں کھڑا ہوں، تیرے در پر ، زندگی
ملتجی و مضمحل
خرقہ پوش و پا بہ گل
اے جہانِ خار و خس کی روشنی
زندگی ، اے زندگی
میں ترے در پر چمکتی چلمنوں کی اوٹ سے
سن رہا ہوں قہقہوں کے دھمیے دھیمے زمزمے
گرم ، گہری ، گفتگو کے سلسلے
منقل آتش بجاں کے متصل،
اور ادھر باہر گلی میں، خرقہ پوش و پا بہ گل
میں کہ اک لمحے کا دل
جس کی ہر دھڑکن میں گونجے دو جہاں کی تیرگی
زندگی ، اے زندگی
کتنے سائے محوِ رقص
تیرے در کے پردہء گلفام پر
کتنے سائے، کتنے عکس
کتنے پیکر محوِ رقص
اور اک تو کہنیاں ٹیکے خم ایام پر
ہونٹ رکھ کر جام پر
سن رہی ہے ناچتی صدیوں کا آہنگِ قدم
جاوداں خوشیوں کی بجتی گتکڑی کے زیر و بم
آنچلوں کی جھم جھماہٹ، پائلوں کی چھم چھم
اس طرف، باہر، سر کوئے عدم
ایک طوفاں، ایک سیل بے اماں
ڈوبنے کو ہیں مرے شام و سحر کی کشتیاں
اے نگارِ دل ستاں
اپنی نٹ کھٹ انکھڑیوں سے میری جانب جھانک بھی
زندگی، اے زندگی
22/5/1953
مجید امجد
مدیر کی آخری تدوین: