محمد تابش صدیقی
منتظم
ایک نظم احباب کی بصارتوں کی نذر
باغ میں زنگ آلود اک بینچ پر
کچھ فسانے لکھے ہیں، بہت پُر اثر
کتنے آنسو بہائے گئے ہیں یہاں
کتنے ہی غم بھلائے گئے ہیں یہاں
خواب کتنے سجائے گئے ہیں یہاں
کتنے ہی پَل بِتائے گئے ہیں یہاں
کوئی آتا ہے آنسو بہا جاتا ہے
کوئی سنگت کے لمحے بِتا جاتا ہے
کوئی خواب اپنے سارے سنا جاتا ہے
کوئی شب رَو بچھونا بنا جاتا ہے
بینچ غمخوار ہے غم کے ماروں کا بھی
اور ہمراز ہے کتنے یاروں کا بھی
بینچ بستر ہے بے روزگاروں کا بھی
اور پڑاؤ پرندوں کی ڈاروں کا بھی
آؤ بیٹھیں، دکھوں کی کہانی سنیں
یا پرندوں کی باتیں سہانی سنیں
کوئی تازہ کہیں، کچھ پرانی سنیں
بینچ کے بازوؤں کی زبانی سنیں
باغ میں زنگ آلود اک بینچ پر
کچھ فسانے لکھے ہیں، بہت پُر اثر
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
کچھ فسانے لکھے ہیں، بہت پُر اثر
کتنے آنسو بہائے گئے ہیں یہاں
کتنے ہی غم بھلائے گئے ہیں یہاں
خواب کتنے سجائے گئے ہیں یہاں
کتنے ہی پَل بِتائے گئے ہیں یہاں
کوئی آتا ہے آنسو بہا جاتا ہے
کوئی سنگت کے لمحے بِتا جاتا ہے
کوئی خواب اپنے سارے سنا جاتا ہے
کوئی شب رَو بچھونا بنا جاتا ہے
بینچ غمخوار ہے غم کے ماروں کا بھی
اور ہمراز ہے کتنے یاروں کا بھی
بینچ بستر ہے بے روزگاروں کا بھی
اور پڑاؤ پرندوں کی ڈاروں کا بھی
آؤ بیٹھیں، دکھوں کی کہانی سنیں
یا پرندوں کی باتیں سہانی سنیں
کوئی تازہ کہیں، کچھ پرانی سنیں
بینچ کے بازوؤں کی زبانی سنیں
باغ میں زنگ آلود اک بینچ پر
کچھ فسانے لکھے ہیں، بہت پُر اثر
٭٭٭
محمد تابش صدیقی