خورشید رضوی نظم : سالگرہ - خورشید رضوی

سالگرہ
جیسے اک سانپ ہے ڈستا ہے مجھے سال بہ سال
جب پلٹ کر وہی موسم وہی دن آتا ہے
پھولنے لگتا ہے مجھ میں وہی مسموم خمیر
اُس کا بوسہ مری پوروں میں مہک اٹھتا ہے

اور وہ اپنی ہی خوشبو کی کشش سے بے چین
میں کہیں بھی ہوں مرے پاس چلا آتا ہے
در و دیوار اُسے راستہ دے دیتے ہیں
اور میں اُس کی طرف ہاتھ بڑھا دیتا ہوں

نیل بڑھتے چلے جاتے ہیں مگر چارہ نہیں
ہے مری زیست کی تصدیق یہی زہر کی مُہر
جس سے انکار کی قیمت ہے مرا اپنا وجود
خورشید رضوی
 
آخری تدوین:
Top