مجید امجد نظم-طلوع سحر - مجید امجد

طلوع سحر

سحر کے وقت دفتر کو رواں ہوں
رواں ہوں، ہمرہِ صد کارواں ہوں

سرِ بازار انسانوں کا انبوہ،

کسی دستِ گل اندوزِ حنا نے
زمانے کی حسیں رتھ کی لگامیں
کسی کف پر خراشِ خارِ محنت،
عدم کے راستے پر آنکھ میچے
کوئی آگے رواں ہے کوئی پیچھے

سڑک کے موڑپر نالی میں پانی
تڑپتا تلملاتا جا رہا ہے
زدِ جاروب کھاتا جا رہا ہے
وہی مجبورئ افتادِ مقصد
جو اس کی کاہش رفتار میں ہے
مرے ہر گامِ ناہموار میں ہے

کوئی پنچھی اپنے دل میں
امیدوں کے سنہرے جال بن کے
اڑ جاتا ہے چگنے دانے دنکے
فضائے زندگی کی آندھیوں سے
ہے ہر اک کو بچشمِ تر گزرنا
مجھ چل کر اسے اڑ کر گزرنا

وہ اک اندھی بھکارن لڑکھڑائی
کہ چوراہے کو کھمبے کو پکڑ لے
صدا سے راہگیروں کو جکڑ لے
یہ پھیلاپھیلا، میلا میلا دامن
یہ کاسہ ، یہ گلوئے شور انگیز

میرا دفتر ، مری مسلیں، مرا میز

ابھی کمسن اس کو کیا پڑی ہے
جسے جزداں بھی اک بارِ گراں ہے
وہ بچہ بھی سوئے مکتب رواں ہے

شریکِ کاروانِ زندگانی!

یہ کیا ہے مالکِ زندانِ تقدیر!
جوان و پیر کے پاؤں میں زنجیر!

شبِ رفتہ کی یادوں کو بھلانے
دکاں پر -پان کھانے آگئی ہے
جہاں کا منہ چڑانے آگئی ہے
ہے اس میں مجھ میں کتنا فرق! لیکن
وہی اک فکر اس کو بھی، مجھے بھی
کہ آنے والی شب کیسےکٹے گی!

چمکتی کار فراٹے سے گزری
غبارِ رہ نے کروٹ بدلی، جاگا
اٹھا، اک دو قدم تک ساتھ بھاگا
پیا پے ٹھوکروں کا یہ تسلسل
یہ پرواز بھی افتادگی بھی
متاع زیست اس کی بھی مری بھی

گلستاں میں کہیں بھنورے نے چوسا
گلوں کا رس شرابوں سا نشیلا
کہیں پرگھونٹ اک کڑوا کسیلا
کسی سڑتے ہوئے جوہڑ کے اندر
پڑا اک رینگتے کیڑے کو پینا
مگر مقصد وہی دو سانس جینا

وہ نکلا پھوٹ کر نورِ سحر
نظامِ زیست کا دریائے خونناب
پسینوں، آنسوؤں کا اک سیلاب
کہ جس کی رو میں بہتا جا رہا ہے
گداگر کا کدو بھی جامِ جم بھی،
کلھاڑی بھی درانتی بھی قلم بھی!

سحر کے وقت دفتر کو رواں ہوں
رواں ہوں ہمرہِ صد کارواں ہوں

مجید امجد
 
Top