فرحان محمد خان
محفلین
عفریت اور دیوتا
جی میں آتا ہے شہر میں گھوموں
اور کوئی مجھے نہ پہچانے
خوف و دہشت سے لوگ دہرائیں
میری جادو گری کے افسانے
یوں مرے جسم و جاں ہوں پُر اسرار
یوں مرے خال و خد ہوں انجانے
جیسے میرے وجود میں مدفون
گُم شدہ مقبروں کے تہہ خانے
جیسے میرے غبار میں مُلبوس
موت کی وادیوں کے ویرانے
جی میں آتا ہے شہر میں گھوموں
اور کوئی مجھے نہ پہچانے
توڑ ڈالے ہوں اس طرح میں نے
شخصیت کے تمام پیمانے
کہ مری ذات کے دھندلکے میں
کوئی جھانکے تو کچھ نہ پہچانے
میرے ویرانۂ سراغ میں گم
لاکھ دانا ہزار دیوانے
کوئی سمجھے فرشتۂ ارواح
کوئی آوارہ گرد گردانے
بے محابا مسافروں کی طرح
گشت کرتے ہوں میرے افسانے
داستانوں کے ڈھیر لگ جائیں
گر کوئی میری خاکِ پا چھانے
چھانٹ رکھے ہوں میری وحشت نے
شہر و صحرا میں دو ہی کاشانے
اولِ صبح چند گورستان
آخرِ شام چند مے خانے
جی میں آتا ہے شہر میں گھوموں
اور کوئی مجھے نہ پہچانے
شہریار و امیر و میر و فقیر
کون کیا ہے مری بلا جانے؟
میں ہوں یارانِ شہر سے بیزار
مجھ سے یارانِ شہر بیگانے
میری حد تک حُدودِ ممنوعہ
مسجدیں ، مدرسے ، صنم خانے
یوں گریزاں ہوں میرے سائے سے
شہرِ علم و ہنر کے فرزانے
جیسے طوقِ گلو سے دانش مند
جیسے زنجیرِ پا سے دیوانے
جی میں آتا ہے شہر میں گھوموں
اور کوئی مجھے نہ پہچانے
لیکن اس شہرِ نامراد سے دور
وہ جو ٹیلے ہیں جانے پہچانے
ایک معدوم قوم کا مسکن
قبلِ تاریح کے یہ ویرانے
یہ پُراسرار عالمِ ارواح
آدمِ اولین کے کاشانے
انہی ٹیلوں میں ایک ٹیلے پر
کب سے ؟ کس عہد سے ؟ خدا جانے
ایک سایہ سا کانپتا ہے کبھی
ابدیت کی پرچھیاں تانے
یہ ہے تاریخِ عقل کا عفریت
اہلِ دانش ہیں جس کے دیوانے
یہی عفریتِ دوزخی اے کاش
مجھ کو معصوم دیوتا مانے
جی میں آتا ہے شہر میں گھوموں
اور کوئی مجھے نہ پہچانے
خوف و دہشت سے لوگ دہرائیں
میری جادو گری کے افسانے
یوں مرے جسم و جاں ہوں پُر اسرار
یوں مرے خال و خد ہوں انجانے
جیسے میرے وجود میں مدفون
گُم شدہ مقبروں کے تہہ خانے
جیسے میرے غبار میں مُلبوس
موت کی وادیوں کے ویرانے
جی میں آتا ہے شہر میں گھوموں
اور کوئی مجھے نہ پہچانے
توڑ ڈالے ہوں اس طرح میں نے
شخصیت کے تمام پیمانے
کہ مری ذات کے دھندلکے میں
کوئی جھانکے تو کچھ نہ پہچانے
میرے ویرانۂ سراغ میں گم
لاکھ دانا ہزار دیوانے
کوئی سمجھے فرشتۂ ارواح
کوئی آوارہ گرد گردانے
بے محابا مسافروں کی طرح
گشت کرتے ہوں میرے افسانے
داستانوں کے ڈھیر لگ جائیں
گر کوئی میری خاکِ پا چھانے
چھانٹ رکھے ہوں میری وحشت نے
شہر و صحرا میں دو ہی کاشانے
اولِ صبح چند گورستان
آخرِ شام چند مے خانے
جی میں آتا ہے شہر میں گھوموں
اور کوئی مجھے نہ پہچانے
شہریار و امیر و میر و فقیر
کون کیا ہے مری بلا جانے؟
میں ہوں یارانِ شہر سے بیزار
مجھ سے یارانِ شہر بیگانے
میری حد تک حُدودِ ممنوعہ
مسجدیں ، مدرسے ، صنم خانے
یوں گریزاں ہوں میرے سائے سے
شہرِ علم و ہنر کے فرزانے
جیسے طوقِ گلو سے دانش مند
جیسے زنجیرِ پا سے دیوانے
جی میں آتا ہے شہر میں گھوموں
اور کوئی مجھے نہ پہچانے
لیکن اس شہرِ نامراد سے دور
وہ جو ٹیلے ہیں جانے پہچانے
ایک معدوم قوم کا مسکن
قبلِ تاریح کے یہ ویرانے
یہ پُراسرار عالمِ ارواح
آدمِ اولین کے کاشانے
انہی ٹیلوں میں ایک ٹیلے پر
کب سے ؟ کس عہد سے ؟ خدا جانے
ایک سایہ سا کانپتا ہے کبھی
ابدیت کی پرچھیاں تانے
یہ ہے تاریخِ عقل کا عفریت
اہلِ دانش ہیں جس کے دیوانے
یہی عفریتِ دوزخی اے کاش
مجھ کو معصوم دیوتا مانے
رئیس امروہوی