نظم فضیل احمد ناصری عنبرؔ

فاخر

محفلین
نظم
فضیل احمد ناصری

آج کچھ مانگ رہا ہوں مرے داتا ! دے دے
ملتِ احمدِ مرسلؑ کو مسیحا دے دے

اپنے دشمن کو سمجھتی ہے یہ اب بھی اپنا
یا خدا قوم کو تو دیدۂ بینا دے دے

بھیج دے پھر کسی سر باختہ ایوبی کو
میرے قبضے میں مری مسجدِ اقصیٰ دیدے

غیر کے رنگ میں رنگیں ہیں حرم کے والی
یا الہی ! انہیں عشقِ شہِ بطحاؑ دے دے

اشکِ غم سے ہوئیں معمور ہماری آنکھیں
اب تو رحمت کا خدایا کوئی سایہ دے دے

دے ہمیں غیرتِ صدیقؓ و ادائے حیدرؓ
پھر ہمیں طاقتِ تخریبِ کلیسا دے دے

بھول کر بیٹھ گئے ہیں ترے بندے تجھ کو
یا خدا ! تو انہیں پھر سے رہِ کعبہ دے دے

قائدِ وقت اٹھے قوم کے تاجر بن کر
رہ نمائی کو ہمیں بندۂ مولا دے دے

اس کی تکبیر سے کانپ اٹّھے زمانہ سارا
دلِ مسلم کو تو وہ زندہ تمنا دے دے
 

فاخر

محفلین
جى بالكل واضح ہے یہ نظم ہندوستانی ماحول کے پس منظر میں لکھی گئی ہے جیسا کہ خود صاحب کلام حضرت فضیل ناصری کی رائے ہے ۔
 
Top