گلزار نظم-قدم اسی موڑ پر جمے ہیں - گلزار

قدم اسی موڑ پر جمے ہیں

قدم اسی موّڑ پر جمے ہیں

نظر سمیٹے ہوئے کھڑا ہوں

جنوں یہ مجبور کر رہا ہے پلٹ کے دیکھوں

خودی یہ کہتی ہے موڑ مڑ جا

اگرچہ احساس کہہ رہا ہے

کھلے دریچے کے پیچھے دو آنکھیں جھانکتی ہیں

ابھی میرے انتظار میں وہ بھی جاگتی ہیں

کہیں تو اس کے گوشہء دل میں درد ہو گا

اسے یہ ضد ہے کہ میں پکاروں مجھے تقاضا ہے وہ بلائے

قدم اسی موڑ پر جمے ہیہں

نظر سمیٹے ہوئے کھڑا ہوں

گلزار
 

عمران خان

محفلین
تمہیں یہ ضد تھی کہ ہم بلاتے ، ہمیں یہ امید وہ پکاریں
ہے نام ہونٹوں پہ اب بھی لیکن ،آواز میں پڑ گئیں دراڑیں


ہزار راہیں مڑکے دیکھیں ،کہیں سے کوئی صدا نہ آئی
بڑی وفا سے نبھائی تم نے،ہماری تھوڑی سی بے وفائی


گلزار صاحب کے اس گیت میں بھی کچھ اسی قسم کی منظر کشی ہے
:)
بہت خوبصورت۔۔۔شکریہ جی
 
Top