نظم "مجھے تم یاد آتے ہو" فرحت عباس شاہ

نظم
“مجھے تم یاد آتے ہو“

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔
کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر
کسی انجان بیماری کی شدت میں
“مجھے تم یاد آتے ہو“

کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔

مری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے

مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخور رنجش کھٹکتی ہے
تمہاری بے دردی سلگتی ہے
یا پھر جب مری آنکھوں کے صحرا میں
تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔

مقدر کے ستا روں پر
زمانوں کے اشاروں پر
ادا سی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔

سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔
کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔۔
کسی کے نام ہو کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔

کہیں بارش برس جائے ۔ ۔ ۔۔
کہیں صحرا ترس جائے ۔ ۔۔ ۔
کہیں کالی گھٹا اتر جائے ۔ ۔۔ ۔۔
کہیں باد صبا ٹھہرے ۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

(فرحت عباس شاہ )
 

دوست

محفلین
بہت اچھے۔
اگر آپ کی تشریف آوری اسی طرح ہوتی رہے تو ہمیں اچھی اچھی شاعری ہی پڑھنے کو ملتی رہے کم از کم۔
 

حجاب

محفلین
مجھے تم یاد آتے ہو ۔۔۔

نظم
“مجھے تم یاد آتے ہو“

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔
کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر
کسی انجان بیماری کی شدت میں
“مجھے تم یاد آتے ہو“

کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔

مری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے

مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخو رنجش کھٹکتی ہے
تمہاری بے دردی سلگتی ہے
یا پھر جب مری آنکھوں کے صحرا میں
تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔

مقدر کے ستا روں پر
زمانوں کے اشاروں پر
ادا سی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔

سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔
کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔۔
کسی کے نام ہو کوئی۔ ۔۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔

کہیں بارش برس جائے ۔ ۔ ۔
کہیں صحرا ترس جائے ۔ ۔۔ ۔
کہیں کالی گھٹا اتر جائے ۔ ۔
کہیں باد صبا ٹھہرے ۔۔ ۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔

(فرحت عباس شاہ )

_________________​
 

حسن علوی

محفلین
بہت خوب کلام شئیر کیا حجاب آپ نے بہت شکریہ۔
ایک مصرعہ میں ایک لفظ کچھ کھٹکا سوچا بتاتا چلوں:

مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخور رنجش کھٹکتی ہے

یہاں لفظ تندخُو ہوگا نا؟ شاید ٹائپو غلطی ھے۔
 

زینب

محفلین
مجھے تم یاد آتے ہو۔۔۔فرحت عباس شاہ

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔
کسی سنسان سپنے میں چھپی خوائش کی حدت میں
کسی مصروفیت کے موڑ پر
تنہائی کے صحراؤں میں یا پھر
کسی انجان بیماری کی شدت میں
“مجھے تم یاد آتے ہو“

کسی بچھڑے ہوئے کی چشم نم کے نظارے پر
کسی بیتے ہوئے دن کی تھکن کی اوٹ سے
یا پھر تمہارے ذکر میں گزری ہوئی شب کے اشارے پر
کسی بستی کی بارونق سڑک پر
اور کسی دریاَ ، کسی ویران جنگل کے کنارے پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔

مری چپ کے کنویں میں
آرزوؤں کے بدن جب تیرتے ہیں
اور کنارے سے کوئی بولے
تو لگتا ہے اجل آواز دیتی ہے

مری بے چینیوں میں جب تمہاری تندخور رنجش کھٹکتی ہے
تمہاری بے دردی سلگتی ہے
یا پھر جب مری آنکھوں کے صحرا میں
تمہاری یاد کی تصویر جلتی ہے ، جدائی آنکھ ملتی ہے

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو۔ ۔ ۔ ۔

مقدر کے ستا روں پر
زمانوں کے اشاروں پر
ادا سی کے کناروں پر
کبھی ویران شہروں میں
کبھی سنسان رستوں پر
کبھی حیران آنکھوں میں
کبھی بے جان لمحوں پر

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔

سہانی شام ہو کوئی ۔ ۔۔ ۔
کہیں بدنام ہو کوئی بھلے گلفام کوئی ۔ ۔ ۔۔
کسی کے نام ہو کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔ ۔

کہیں بارش برس جائے ۔ ۔ ۔۔
کہیں صحرا ترس جائے ۔ ۔۔ ۔
کہیں کالی گھٹا اتر جائے ۔ ۔۔ ۔۔
کہیں باد صبا ٹھہرے ۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔۔

مجھے تم یاد آتے ہو ۔ ۔ ۔
مجھے تم یاد آتے ہو ۔
 
Top