پیاسا صحرا
محفلین
مرے خدا مرے دل!
مرے ضمیر کے بھیدوں کے جاننے والے
تجھے تو اس کی خبر ہے، مرے خدا، مرے دل
کہ میں ان آندھیوں میں عمر بھر،جدھر بھی بہا
کوئی بھی دھن تھی میں اس لہر کی گرفت میں تھا
جو تیری سوچ کی سچائیوں میں کھولتی ہے
ہے جس کی رو میں تری ضو، مرے خدا مرے دل
مرے لہو میں تری لو ہے دھڑکنوں کا الاؤ
تجھے تو اس کی خبر ہے، مرے خدا، مرے دل
کہ اس طلسم زیاں کے کسی جھمیلے میں،
ذرا کبھی جو قدم میرے ڈگمگا بھی گئے
تو اک خیال، ابد موج سلسلوں کا خیال
مرے وجود میں چنگاریاں بکھیر گیا
سنبھل کے دیکھا تو دنیا میں اور کچھ بھی نہ تھا
نہ دکھتی سانس کے ارماں، نہ جیتی مٹی کے لوبھ
نہ کوئی روگ، نہ چنتا، نہ میں ، نہ میرے جتن
جو مجھ میں تھا بھی کوئی گن ترے ہی گیان سے تھا
کچھ اور ڈوب کے گہرائیوں میں جب دیکھا
تو ہر سلگتی ہوئی قدر کے مقدر میں
نہاں تھے تیرے تقاضے، مرے خدا، مرے دل
ہیں تیری کرنوں میں کڑیاں چمکتے قرنوں کی
تجھے تو اس کی خبر ہے، مرے خدا، مرے دل
کہ اس کرے پہ ہے جو کچھ بھی اس کے پہلو میں
وہ شعلے جن پہ شکن ہے ، تری ہی کروٹ ہے
ترے ہی دائرے کا جزو ہیں وہ دور کہ جب
چٹانیں پگھلیں، ستارے جلے، زمانے ڈھلے
وہ گردشیں جنھیں اپنا کے ان گنت سورج
ترے سفر میں بجھے تو انہی اندھیروں سے
دوامِ درد کی اک صبح ابھری پھول کھلے
مہک اٹھی تری دنیا، مرے خدا مرے دل
گھلا ہوا مری سانسوں میں ہے سفر تیرا
تجھے تو خبر ہے مرے خدا، مرے دل،
کہ گو یہی میرا پیکر ضمیر خاک سے ہے
مگر اسی مرے تپتے بدن کی بھٹی سے
کشید ہوتی ہوئی ایک ایک ساعت زیست،
وہ گھونٹ زہر کا ہے جو مجھی کو پینا پڑا
یہ زہر کون پیے؟ کون اپنے سینے میں
یہ آگ انڈیل کے، ان ساحلوں سے بھید چنے
جہاں پہ بکھرے ہیں صد ہا صداقتوں کے صدف!
یہ زہر کون پیے؟ کون بجھتی آنکھوں سے
غروب وقت کی خندق کے پار دیکھ سکے
جہاں ازل کے بیاباں میں عمر پیما ہے
حقیقتوں کا وہ دھارا، کہ جس کی لہروں میں آج
گلوں کا رس بھی ہے فولاد کا پسینہ بھی
مرا شعور انہی گھاٹیوں میں بھٹکا ہے
قدم قدم پر مری ٹھوکروں کی زد میں رہیں
کرخت ٹھیکریاں ان کٹھور ماتھوں کی
جو زندگی میں ترے آستاں پہ جھک نہ سکے
قدم قدم پہ سیہ فاصلوں کے سنگم پر
بس اک مجھی کو اس ان مٹ تڑپ سے حصہ ملا
تری جرس کی صدا میں ہیں رتجگے جس کے
یہی تڑپ تری کایا، یہی تڑپ، مرا انت
جو انت بھی ہو، سو ہو ، میں تو مٹتی مٹی ہوں
دھڑکتی ریت کے بے انت جھکڑوں میں سدا
رواں رہیں، ترے محمل! مرے خدا ، مرے دل،
تری ہی آگ کی میٹھی سی آنچ ہیں مرے دکھ
یہ راز تو ہی بتا اب ، مرے خدا ،مرے دل،
یہ بات کیا کہ ترے بے خزاں خزانوں سے
جو کچھ ملا بھی ہے مجھکو تو اک یہ ریزہ درد،
ہیں جس کی جھولی میں کھلیان تیرے شعلوں کے
اور اب کے سامنے، جلتی حدوں کی سر حد ہے
ہر ایک سمت مری گھات میں ہیں وہ روحیں
جو اپنے آپ میں راکھ کا سمندر ہیں
یہ روحیں، بس بھرے، ذی جسم، آہنیں سائے
انہی کے گھیرے میں ہیں اب یہ بستیاں یہ دیار
کہیں یہ سائے، جو پتھرائی آرزوؤں کو
سراب زر کی کشش بن کے گدگداتے ہیں
مری لگن کو نہ ڈسنے لگیں، میں ڈرتا ہوں
کہیں یہ سائے، یہ کیچڑ کی مورتیں، جن کے
بدن کے دھبوں پہ رخت حریر کی ہے پھبن
مری کرن کی نہ چھب نوچ لیں، میں ڈرتا ہوں
کہیں یہ آگ نہ بجھ جائے جس کے انگ میں ہیں
ترے دوام کی انگڑائیاں، میں سوچتا ہوں
نہیں، یہ ہو نہ سکے گا! جو یوں ہوا بھی تو پھر؟
نہیں! ابھی تو یہ اک سانس! ابھی تو ہے کیا کچھ!
ابھی تو جلتی حدوں کی حدیں ہیں لامحدود،
ابھی تو اس مرے سینے کے ایک گوشے میں
کہیں، لہو کے تریڑوں میں، برگ مرگ پہ اک
کوئی لرزتا جزیرہ سا تیرتا ہے جہاں
ہر اک طلب تری دھڑکن میں ڈوب جاتی ہے
ہر اک صدا ہے کوئی دور کی صدا، مرے دل
مرے خدا، مرے دل
مجید امجد
مرے ضمیر کے بھیدوں کے جاننے والے
تجھے تو اس کی خبر ہے، مرے خدا، مرے دل
کہ میں ان آندھیوں میں عمر بھر،جدھر بھی بہا
کوئی بھی دھن تھی میں اس لہر کی گرفت میں تھا
جو تیری سوچ کی سچائیوں میں کھولتی ہے
ہے جس کی رو میں تری ضو، مرے خدا مرے دل
مرے لہو میں تری لو ہے دھڑکنوں کا الاؤ
تجھے تو اس کی خبر ہے، مرے خدا، مرے دل
کہ اس طلسم زیاں کے کسی جھمیلے میں،
ذرا کبھی جو قدم میرے ڈگمگا بھی گئے
تو اک خیال، ابد موج سلسلوں کا خیال
مرے وجود میں چنگاریاں بکھیر گیا
سنبھل کے دیکھا تو دنیا میں اور کچھ بھی نہ تھا
نہ دکھتی سانس کے ارماں، نہ جیتی مٹی کے لوبھ
نہ کوئی روگ، نہ چنتا، نہ میں ، نہ میرے جتن
جو مجھ میں تھا بھی کوئی گن ترے ہی گیان سے تھا
کچھ اور ڈوب کے گہرائیوں میں جب دیکھا
تو ہر سلگتی ہوئی قدر کے مقدر میں
نہاں تھے تیرے تقاضے، مرے خدا، مرے دل
ہیں تیری کرنوں میں کڑیاں چمکتے قرنوں کی
تجھے تو اس کی خبر ہے، مرے خدا، مرے دل
کہ اس کرے پہ ہے جو کچھ بھی اس کے پہلو میں
وہ شعلے جن پہ شکن ہے ، تری ہی کروٹ ہے
ترے ہی دائرے کا جزو ہیں وہ دور کہ جب
چٹانیں پگھلیں، ستارے جلے، زمانے ڈھلے
وہ گردشیں جنھیں اپنا کے ان گنت سورج
ترے سفر میں بجھے تو انہی اندھیروں سے
دوامِ درد کی اک صبح ابھری پھول کھلے
مہک اٹھی تری دنیا، مرے خدا مرے دل
گھلا ہوا مری سانسوں میں ہے سفر تیرا
تجھے تو خبر ہے مرے خدا، مرے دل،
کہ گو یہی میرا پیکر ضمیر خاک سے ہے
مگر اسی مرے تپتے بدن کی بھٹی سے
کشید ہوتی ہوئی ایک ایک ساعت زیست،
وہ گھونٹ زہر کا ہے جو مجھی کو پینا پڑا
یہ زہر کون پیے؟ کون اپنے سینے میں
یہ آگ انڈیل کے، ان ساحلوں سے بھید چنے
جہاں پہ بکھرے ہیں صد ہا صداقتوں کے صدف!
یہ زہر کون پیے؟ کون بجھتی آنکھوں سے
غروب وقت کی خندق کے پار دیکھ سکے
جہاں ازل کے بیاباں میں عمر پیما ہے
حقیقتوں کا وہ دھارا، کہ جس کی لہروں میں آج
گلوں کا رس بھی ہے فولاد کا پسینہ بھی
مرا شعور انہی گھاٹیوں میں بھٹکا ہے
قدم قدم پر مری ٹھوکروں کی زد میں رہیں
کرخت ٹھیکریاں ان کٹھور ماتھوں کی
جو زندگی میں ترے آستاں پہ جھک نہ سکے
قدم قدم پہ سیہ فاصلوں کے سنگم پر
بس اک مجھی کو اس ان مٹ تڑپ سے حصہ ملا
تری جرس کی صدا میں ہیں رتجگے جس کے
یہی تڑپ تری کایا، یہی تڑپ، مرا انت
جو انت بھی ہو، سو ہو ، میں تو مٹتی مٹی ہوں
دھڑکتی ریت کے بے انت جھکڑوں میں سدا
رواں رہیں، ترے محمل! مرے خدا ، مرے دل،
تری ہی آگ کی میٹھی سی آنچ ہیں مرے دکھ
یہ راز تو ہی بتا اب ، مرے خدا ،مرے دل،
یہ بات کیا کہ ترے بے خزاں خزانوں سے
جو کچھ ملا بھی ہے مجھکو تو اک یہ ریزہ درد،
ہیں جس کی جھولی میں کھلیان تیرے شعلوں کے
اور اب کے سامنے، جلتی حدوں کی سر حد ہے
ہر ایک سمت مری گھات میں ہیں وہ روحیں
جو اپنے آپ میں راکھ کا سمندر ہیں
یہ روحیں، بس بھرے، ذی جسم، آہنیں سائے
انہی کے گھیرے میں ہیں اب یہ بستیاں یہ دیار
کہیں یہ سائے، جو پتھرائی آرزوؤں کو
سراب زر کی کشش بن کے گدگداتے ہیں
مری لگن کو نہ ڈسنے لگیں، میں ڈرتا ہوں
کہیں یہ سائے، یہ کیچڑ کی مورتیں، جن کے
بدن کے دھبوں پہ رخت حریر کی ہے پھبن
مری کرن کی نہ چھب نوچ لیں، میں ڈرتا ہوں
کہیں یہ آگ نہ بجھ جائے جس کے انگ میں ہیں
ترے دوام کی انگڑائیاں، میں سوچتا ہوں
نہیں، یہ ہو نہ سکے گا! جو یوں ہوا بھی تو پھر؟
نہیں! ابھی تو یہ اک سانس! ابھی تو ہے کیا کچھ!
ابھی تو جلتی حدوں کی حدیں ہیں لامحدود،
ابھی تو اس مرے سینے کے ایک گوشے میں
کہیں، لہو کے تریڑوں میں، برگ مرگ پہ اک
کوئی لرزتا جزیرہ سا تیرتا ہے جہاں
ہر اک طلب تری دھڑکن میں ڈوب جاتی ہے
ہر اک صدا ہے کوئی دور کی صدا، مرے دل
مرے خدا، مرے دل
مجید امجد