فرحان محمد خان
محفلین
معذرت
نور و آہنگ کا افسانہِء بےتاب لیے
چشمکِ برق و شرر خندہِء مہتاب لیے
محفلِ لالہ رُخاں صبح کا سیلاب لیے
زندگانی کا شرر بار فضاؤں میں تو ہے
مےِ رفتار بتاں اب بھی ہواؤں میں تو ہے
جام و مینا میں ستاروں کی ضیائیں غلطاں
رہ گزاروں میں جوانی کے شفق شعلہ فشاں
بربط و ساز سے آہنگ کا سیلاب رواں
آج بھی وسعتِ افلاک پہ چھا جاتا ہے
ہر نفس یاس کا احساس مٹا جاتا ہے
جامِ خیّام میں ڈوبی ہوئی ہر شام کہیں
صبح اک پرتوِ رخسارِ دل آرام کہیں
ہر نفس پردہ درِ عشقِ بد انجام کہیں
یہ گزرتے ہوئے کچھ سیم براں پاس سے دوست
خوں ٹپکتا ہی رہا دیدہِء احساس سے دوست
رہ گزاروں پہ یہ شاداب تبسّم کی کرن
آتشیں جس سے ہوئے تیرہ فضا کے دامن
موج در موج یہ اشکوں میں محبت کا چلن
درد یہ سینہِ سوزاں سے چرانے والے
آہن و سنگ کو نیندوں میں جگانے والے
رنگِ گل خیمہ زن و رقص میں بے تاب طیور
مہر و مہتاب کا دہکے ہوئے جسموں میں یہ نور
بے ارادہ یہ کہیں تنگ قباؤں کا غرور
ہم جوارِ مہ و پرویں یہ گُل اندام کہیں
نیند کی گود میں کھوئے ہوئے اصنام کہیں
اوس میں ڈوبی ہوئی صبح پرندوں کی قطار
نغمہ پیرا ہے کبھی لوٹ کے تاروں کا دیار
ان کی پرواز سے خوابیدہ فضاؤں میں خمار
دل کو ہر نیند سے رہ رہ کے جگا دیتا ہے
آج بھی نبض کی رفتار بڑھا دیتا ہے
تابشِ جسم میں کچھ انجمِ شب تاب لیے
بجلیاں خون میں ساکت لیے بے تاب لیے
اک کفِ پا میں کئی رقص کے گرداب لیے
کوئی محفل میں ابھی رقص کناں ملتا ہے
ایک صیّادِ غمِ عمرِ رواں ملتا ہے
ابر کی چھاؤں میں یہ گرم و منّور اجسام
آتشیں نرم تبسّم کے بگولوں کا نظام
قصہِء خلد کو دُہراتے ہوئے لاکھ پیام
کتنے ہی قدموں سے منزل کی صدا آتی ہے
زندگی رقص میں ہر موڑ پہ لہراتی ہے
دل میں کچھ گرمیِ رخسارِ بتاں باقی ہے
ساز میں جنبشِ ہر نبضِ جواں باقی ہے
خاک کے ڈھیر میں جذبوں کا دھواں باقی ہے
خاک آلودہ سہی اپنی قبا چاک سہی
ہم جیے جائیں گے ، جینا غمِ ادراک سہی
نور و آہنگ کا افسانہِء بےتاب لیے
چشمکِ برق و شرر خندہِء مہتاب لیے
محفلِ لالہ رُخاں صبح کا سیلاب لیے
زندگانی کا شرر بار فضاؤں میں تو ہے
مےِ رفتار بتاں اب بھی ہواؤں میں تو ہے
جام و مینا میں ستاروں کی ضیائیں غلطاں
رہ گزاروں میں جوانی کے شفق شعلہ فشاں
بربط و ساز سے آہنگ کا سیلاب رواں
آج بھی وسعتِ افلاک پہ چھا جاتا ہے
ہر نفس یاس کا احساس مٹا جاتا ہے
جامِ خیّام میں ڈوبی ہوئی ہر شام کہیں
صبح اک پرتوِ رخسارِ دل آرام کہیں
ہر نفس پردہ درِ عشقِ بد انجام کہیں
یہ گزرتے ہوئے کچھ سیم براں پاس سے دوست
خوں ٹپکتا ہی رہا دیدہِء احساس سے دوست
رہ گزاروں پہ یہ شاداب تبسّم کی کرن
آتشیں جس سے ہوئے تیرہ فضا کے دامن
موج در موج یہ اشکوں میں محبت کا چلن
درد یہ سینہِ سوزاں سے چرانے والے
آہن و سنگ کو نیندوں میں جگانے والے
رنگِ گل خیمہ زن و رقص میں بے تاب طیور
مہر و مہتاب کا دہکے ہوئے جسموں میں یہ نور
بے ارادہ یہ کہیں تنگ قباؤں کا غرور
ہم جوارِ مہ و پرویں یہ گُل اندام کہیں
نیند کی گود میں کھوئے ہوئے اصنام کہیں
اوس میں ڈوبی ہوئی صبح پرندوں کی قطار
نغمہ پیرا ہے کبھی لوٹ کے تاروں کا دیار
ان کی پرواز سے خوابیدہ فضاؤں میں خمار
دل کو ہر نیند سے رہ رہ کے جگا دیتا ہے
آج بھی نبض کی رفتار بڑھا دیتا ہے
تابشِ جسم میں کچھ انجمِ شب تاب لیے
بجلیاں خون میں ساکت لیے بے تاب لیے
اک کفِ پا میں کئی رقص کے گرداب لیے
کوئی محفل میں ابھی رقص کناں ملتا ہے
ایک صیّادِ غمِ عمرِ رواں ملتا ہے
ابر کی چھاؤں میں یہ گرم و منّور اجسام
آتشیں نرم تبسّم کے بگولوں کا نظام
قصہِء خلد کو دُہراتے ہوئے لاکھ پیام
کتنے ہی قدموں سے منزل کی صدا آتی ہے
زندگی رقص میں ہر موڑ پہ لہراتی ہے
دل میں کچھ گرمیِ رخسارِ بتاں باقی ہے
ساز میں جنبشِ ہر نبضِ جواں باقی ہے
خاک کے ڈھیر میں جذبوں کا دھواں باقی ہے
خاک آلودہ سہی اپنی قبا چاک سہی
ہم جیے جائیں گے ، جینا غمِ ادراک سہی
عزیز حامد مدنی
1943ء
1943ء