فرحان محمد خان
محفلین
نئے نام
خواب آلودہ ، پُر اسرار صنم خانوں میں
خاک اور خون میں غلطیدہ بیابانوں میں
آہ اے مادرِ گیتی ترے ایوانوں میں
حبس ہی حبس ، اندھیرا ہی اندھیرا ہے ابھی
اک جہاں سوز جہالت کا بسیرا ہے ابھی
علم و عرفاں کے غلط بینیِ پیہم کا نظام
ذرّے ذرّے پہ ہے افسونِ روایات کا دام
کس قدر خوار یہ ہنگامہِ عالم ہے تمام
ایک ذرّہ بھی زمیں کا نہیں بیدار ابھی
آہنی نیند میں ہے خاکِ پُر اسرار ابھی
کتنے اوہام زبوں کے ہیں خداوند ابھی
ایک اندھیرے میں ہیں تقلید کے فرزند ابھی
شب کے سینے میں ہے سورج کی کرن بند ابھی
ہوک سی اُٹھتی ہے آدم کے سمن زاروں سے
تیرگی ہے کہ لپٹ جاتی ہے مہ پاروں سے
درد میں ڈوبی ہوئی خاکِ حزیں پر کب سے
خندہ زن داورِ محشر ہے زمیں پر کب سے
مُہر سجدوں کی ہے آدم کی جبیں پر کب سے
آؤ آدم کو ہر اک قید سے آزاد کریں
تازہ ہنگاموں سے اس خاک کو آباد کریں
آدمی صرف فرشتوں کا فسانہ نہ رہے
دیوتاؤں کے تبسّم کا نشانہ نہ رہے
اب روایاتِ کہن ہی کا زمانہ نہ رہے
تیرہ و تار خیالات کے آسیب نہ ہوں
حرم و دیر کرامات کے آسیب نہ ہوں
کب سے ہر ذرّہِ ساکن میں ہے جنبش کا جنوں
سنگ پاروں میں لرزتا ہے تغیّر کا فسوں
وقت کے دامنِ صد پارہ سے ٹپکا ہوا خوں
سینہِ خاک سے طوفان اٹھاتا ہے ابھی
ایک افسانہِ خوں ریز سناتا ہے ابھی
آدمیّت کو کُلاہوں کے اندھیروں نے ڈسا
امن و اصلاح کے پرچم کے سویروں نے ڈسا
سینہِ ارض کو چنگیز کے ڈیروں نے ڈسا
آؤ چنگیز کے تابوت پہ کیلیں جڑ دیں
سیل کی راہ میں آہن کی فصیلیں جڑ دیں
چشمِ آدم ہے کہ پیمانہِ پُرخوں کب سے
میر و سلطاں کہ زماںوں کا ہے افسوں کب سے
خاک آلودہ ہے افسانہِ گردوں کب سے
آؤ افلاک کے تاروں کے نئے نام رکھیں
جنبشِ دل کو رقیبِ غمِ ایام رکھیں
خواب آلودہ ، پُر اسرار صنم خانوں میں
خاک اور خون میں غلطیدہ بیابانوں میں
آہ اے مادرِ گیتی ترے ایوانوں میں
حبس ہی حبس ، اندھیرا ہی اندھیرا ہے ابھی
اک جہاں سوز جہالت کا بسیرا ہے ابھی
علم و عرفاں کے غلط بینیِ پیہم کا نظام
ذرّے ذرّے پہ ہے افسونِ روایات کا دام
کس قدر خوار یہ ہنگامہِ عالم ہے تمام
ایک ذرّہ بھی زمیں کا نہیں بیدار ابھی
آہنی نیند میں ہے خاکِ پُر اسرار ابھی
کتنے اوہام زبوں کے ہیں خداوند ابھی
ایک اندھیرے میں ہیں تقلید کے فرزند ابھی
شب کے سینے میں ہے سورج کی کرن بند ابھی
ہوک سی اُٹھتی ہے آدم کے سمن زاروں سے
تیرگی ہے کہ لپٹ جاتی ہے مہ پاروں سے
درد میں ڈوبی ہوئی خاکِ حزیں پر کب سے
خندہ زن داورِ محشر ہے زمیں پر کب سے
مُہر سجدوں کی ہے آدم کی جبیں پر کب سے
آؤ آدم کو ہر اک قید سے آزاد کریں
تازہ ہنگاموں سے اس خاک کو آباد کریں
آدمی صرف فرشتوں کا فسانہ نہ رہے
دیوتاؤں کے تبسّم کا نشانہ نہ رہے
اب روایاتِ کہن ہی کا زمانہ نہ رہے
تیرہ و تار خیالات کے آسیب نہ ہوں
حرم و دیر کرامات کے آسیب نہ ہوں
کب سے ہر ذرّہِ ساکن میں ہے جنبش کا جنوں
سنگ پاروں میں لرزتا ہے تغیّر کا فسوں
وقت کے دامنِ صد پارہ سے ٹپکا ہوا خوں
سینہِ خاک سے طوفان اٹھاتا ہے ابھی
ایک افسانہِ خوں ریز سناتا ہے ابھی
آدمیّت کو کُلاہوں کے اندھیروں نے ڈسا
امن و اصلاح کے پرچم کے سویروں نے ڈسا
سینہِ ارض کو چنگیز کے ڈیروں نے ڈسا
آؤ چنگیز کے تابوت پہ کیلیں جڑ دیں
سیل کی راہ میں آہن کی فصیلیں جڑ دیں
چشمِ آدم ہے کہ پیمانہِ پُرخوں کب سے
میر و سلطاں کہ زماںوں کا ہے افسوں کب سے
خاک آلودہ ہے افسانہِ گردوں کب سے
آؤ افلاک کے تاروں کے نئے نام رکھیں
جنبشِ دل کو رقیبِ غمِ ایام رکھیں
عزیز حامد مدنی
1943ء
1943ء
آخری تدوین: