محمد تابش صدیقی
منتظم
حضوری میں تری اے ربِ برتر
ترا بندہ ہے یہ حاضر نگوں سر
زبان و دل ہیں محوِ آہ و زاری
دعا سن لے غرض ہے یہ ہماری
نہیں تجھ سے نہاں کچھ رازِ عالم
مری دنیا ہے اب مثلِ جہنم
بہر سو معصیت کی ہیں گھٹائیں
ہیں کفر آلودہ دنیا کی فضائیں
سکونِ دل ہوا جاتا ہے رخصت
دلِ انساں ہے نامانوسِ راحت
بہر سو قتل و خوں غارت گری ہے
نظامِ زندگی میں ابتری ہے
رواجِ اختلاطِ مرد و زن ہے
برائی کا بہر سو اک چلن ہے
مئے گلگوں ہے خونِ ابنِ آدم
اسی سے ہے فروغِ ساغرِ جم
برہنہ ہے مذاقِ عشق و الفت
سر اپنا پیٹتی ہے آدمیت
ہے فن اک اب فریب و مکر و حیلہ
چلن سا ہے عداوت بغض و کینہ
ہے انسانوں پہ انساں کی خدائی
نہیں باقی تری فرماں روائی
گناہوں کی ادا استغفر اللہ
حیا سے ہے حیا استغفر اللہ
ہوائے نفس کی ہے حکمرانی
لٹیرا کر رہا ہے پاسبانی
صنم خانہ حریمِ دل بنا ہے
ترا گھر اب بتوں کا ہو گیا ہے
حقیقت پر ہے پھر باطل کا دعویٰ
جھکے سر پھر ہیں پیشِ لات و عزیٰ
بھیانک پنجۂ سرمایہ داری
سسکتی ہے تری مخلوق ساری
کسی کے پاس ہے دولت ہی دولت
کہیں فاقوں سے مر جانے کی نوبت
کہاں تک ہو بیانِ حالِ دنیا
سناتا ہوں تجھے کچھ حال اپنا
وہ مسلم فخرِ موجوداتِ عالم
وہ مسلم محورِ برکاتِ عالم
تھی جس کی زندگی تیری اطاعت
تھا جس کا ہر نفس تیری عبادت
تھی جس کی سعی پیہم نہی منکر
تھا جس کا ہر سخن معروف محور
تھا جس کا کام دیں کی سرفرازی
تھا میدانِ وغا کا جو کہ غازی
گرا صد حیف در قعرِ مذلت
ندامت ہے ندامت ہے ندامت
رکھا قرآن کو بر طاقِ نسیاں
بنا لی زندگی طغیان و عصیاں
بنایا تیرِ غفلت کا نشانہ
ستونِ دیں نمازِ پنج گانہ
رہا اب وہ نہ پابندِ شریعت
شریعت کو کیا پابندِ عادت
حلف لینے کو ہے قرآن تیرا
سمٹ کر رہ گیا ایمان اتنا
جمیعت اس کی فرقوں میں بٹی ہے
نگہ قرآن و سنت سے ہٹی ہے
نکالا ہے جوازِ رقص و نغمہ
بغل میں ہے شراب و جام و شیشہ
حریصِ زر ہے شہوت کا ہے بھوکا
سہارا پھر بھی ہے لا تقنطوا کا
چھٹی جب سے ترے در کی گدائی
ہے اس پر سو خداؤں کی خدائی
گناہوں پر نہیں اپنے وہ نادم
گریزاں ہو گیا آقا سے خادم
زمانے کی بدل جائیں ہوائیں
ضلالت کی یہ چھٹ جائیں گھٹائیں
طلوعِ مہر کا پیغام آئے
کٹے ظلمت کی شب اسلام آئے
ابو بکرؓ و عمرؓ سے حکمراں ہوں
پھر عثمانؓ و علیؓ سے مہرباں ہوں
مئے توحید کا جام و سبو ہو
اسی بادہ سے پھر جوشِ لہو ہو
ہر اک انساں خوشی سے نعرہ زن ہو
مسرت درد و غم پر خندہ زن ہو
غریبوں کے لئے فریاد رس ہوں
مریضوں کے لئے عیسیٰ نفس ہوں
ترا قرآن سینے سے لگے پھر
حیات و موت ہو پھر دیں کی خاطر
احادیثِ پیمبر سے شغف ہو
مسلماں دیں کی خاطر سر بکف ہو
مسلماں کو جہاں بانی عطا کر
اسے پھر تختِ سلطانی عطا کر
عطا کر پھر وہی ایماں کی رفعت
کہ مجرم آپ ہو پیشِ عدالت
دعاؤں میں مری رنگِ اثر دے
شبِ تیرہ کو بھی نورِ سحر دے
نظرؔ کی ہو دعا مقبول یا رب
کہ یارائے سخن اس کو نہیں اب
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
ترا بندہ ہے یہ حاضر نگوں سر
زبان و دل ہیں محوِ آہ و زاری
دعا سن لے غرض ہے یہ ہماری
نہیں تجھ سے نہاں کچھ رازِ عالم
مری دنیا ہے اب مثلِ جہنم
بہر سو معصیت کی ہیں گھٹائیں
ہیں کفر آلودہ دنیا کی فضائیں
سکونِ دل ہوا جاتا ہے رخصت
دلِ انساں ہے نامانوسِ راحت
بہر سو قتل و خوں غارت گری ہے
نظامِ زندگی میں ابتری ہے
رواجِ اختلاطِ مرد و زن ہے
برائی کا بہر سو اک چلن ہے
مئے گلگوں ہے خونِ ابنِ آدم
اسی سے ہے فروغِ ساغرِ جم
برہنہ ہے مذاقِ عشق و الفت
سر اپنا پیٹتی ہے آدمیت
ہے فن اک اب فریب و مکر و حیلہ
چلن سا ہے عداوت بغض و کینہ
ہے انسانوں پہ انساں کی خدائی
نہیں باقی تری فرماں روائی
گناہوں کی ادا استغفر اللہ
حیا سے ہے حیا استغفر اللہ
ہوائے نفس کی ہے حکمرانی
لٹیرا کر رہا ہے پاسبانی
صنم خانہ حریمِ دل بنا ہے
ترا گھر اب بتوں کا ہو گیا ہے
حقیقت پر ہے پھر باطل کا دعویٰ
جھکے سر پھر ہیں پیشِ لات و عزیٰ
بھیانک پنجۂ سرمایہ داری
سسکتی ہے تری مخلوق ساری
کسی کے پاس ہے دولت ہی دولت
کہیں فاقوں سے مر جانے کی نوبت
کہاں تک ہو بیانِ حالِ دنیا
سناتا ہوں تجھے کچھ حال اپنا
وہ مسلم فخرِ موجوداتِ عالم
وہ مسلم محورِ برکاتِ عالم
تھی جس کی زندگی تیری اطاعت
تھا جس کا ہر نفس تیری عبادت
تھی جس کی سعی پیہم نہی منکر
تھا جس کا ہر سخن معروف محور
تھا جس کا کام دیں کی سرفرازی
تھا میدانِ وغا کا جو کہ غازی
گرا صد حیف در قعرِ مذلت
ندامت ہے ندامت ہے ندامت
رکھا قرآن کو بر طاقِ نسیاں
بنا لی زندگی طغیان و عصیاں
بنایا تیرِ غفلت کا نشانہ
ستونِ دیں نمازِ پنج گانہ
رہا اب وہ نہ پابندِ شریعت
شریعت کو کیا پابندِ عادت
حلف لینے کو ہے قرآن تیرا
سمٹ کر رہ گیا ایمان اتنا
جمیعت اس کی فرقوں میں بٹی ہے
نگہ قرآن و سنت سے ہٹی ہے
نکالا ہے جوازِ رقص و نغمہ
بغل میں ہے شراب و جام و شیشہ
حریصِ زر ہے شہوت کا ہے بھوکا
سہارا پھر بھی ہے لا تقنطوا کا
چھٹی جب سے ترے در کی گدائی
ہے اس پر سو خداؤں کی خدائی
گناہوں پر نہیں اپنے وہ نادم
گریزاں ہو گیا آقا سے خادم
زمانے کی بدل جائیں ہوائیں
ضلالت کی یہ چھٹ جائیں گھٹائیں
طلوعِ مہر کا پیغام آئے
کٹے ظلمت کی شب اسلام آئے
ابو بکرؓ و عمرؓ سے حکمراں ہوں
پھر عثمانؓ و علیؓ سے مہرباں ہوں
مئے توحید کا جام و سبو ہو
اسی بادہ سے پھر جوشِ لہو ہو
ہر اک انساں خوشی سے نعرہ زن ہو
مسرت درد و غم پر خندہ زن ہو
غریبوں کے لئے فریاد رس ہوں
مریضوں کے لئے عیسیٰ نفس ہوں
ترا قرآن سینے سے لگے پھر
حیات و موت ہو پھر دیں کی خاطر
احادیثِ پیمبر سے شغف ہو
مسلماں دیں کی خاطر سر بکف ہو
مسلماں کو جہاں بانی عطا کر
اسے پھر تختِ سلطانی عطا کر
عطا کر پھر وہی ایماں کی رفعت
کہ مجرم آپ ہو پیشِ عدالت
دعاؤں میں مری رنگِ اثر دے
شبِ تیرہ کو بھی نورِ سحر دے
نظرؔ کی ہو دعا مقبول یا رب
کہ یارائے سخن اس کو نہیں اب
٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی