نظم: وہیں لے چل

احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک پرانی نظم پیش کر رہا ہوں . امید ہے پسند آئیگی .

وہیں لے چل

مرے رہبر، مجھ کو اتنا بتا ، کیا ایسی دنیا بھی ہے کہیں ؟

جہاں رنج و الم موجود نہ ہوں ، جہاں صرف خوشی ہی بستی ہو
جہاں آہ نہ ہو ، جہاں اشک نہ ہوں ، ہونٹوں سے ہنسی ہی برستی ہو
جہاں نور و تجلی قید نہ ہوں بس محلوں اور ایوانوں میں
جہاں روز چراغِ شام جلے افلاس كے ظلمت خانوں میں
جہاں بھوک سے ہارا طفل کوئی کشکول نہ تھامے ہاتھوں میں
جہاں پیٹ کی خاطر جسموں کا ہوتا نہ ہو سودا راتوں میں
جہاں روٹی کی خاطر دَر دَر مارے مارے پھرنا نہ پڑے
جہاں چھوڑ كے اپنوں کی قربت ، غیروں سے کبھی گھرنا نہ پڑے
جہاں صرف محبت رائج ہو ، نفرت کا کہیں بھی نام نہ ہو
جہاں سب مل جل کر رہتے ہوں ، جھگڑوں سے کسی کو کام نہ ہو
جہاں امن و سکوں قائم ہوں سدا ، جہاں راج نہ ہو حیوانوں کا
جہاں ذات و قبیلہ کی خاطر بہتا نہ ہو خون انسانوں کا

گر ہے تو وہیں لے چل مجھ کو ، اِس دنیا سے جی اوب گیا
اک بہتر کل کی آس کا دھندلا تارا بھی اب ڈوب گیا

نیازمند ،
عرفان عابدؔ
 
Top