ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ! ایک بارہ سال پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ شاید کوئی شعر آپ کو پسند آئے ۔
نظم ِ نو آ گیا ، انصاف نرالا دیگا
بیچ کر مجھ کو مرے منہ میں نوالا دیگا
فرق مٹ تو گئے مابین ِ سفید و سیہ اب
اور کتنا یہ نیا دور اُجالا دیگا
جس کی خاطر میں نے پہچان گنوائی اپنی
اب وہی میرے تشخص کو حوالہ دیگا
سر جھکاتا ہے پذیرائی کے انداز میں آج
کل یہی شہر ہمیں دیس نکالا دیگا
اور کیا دیگا تجھے بندۂ حاجت اے خدا
نذر میں اپنا یہی خالی پیالہ دیگا
گنگنائے گا مرا شعر ہر اک صاحب ِ ذوق
اور مجھے دادِ سخن سوچنے والا دیگا
(۲۰۰۶)
نظم ِ نو آ گیا ، انصاف نرالا دیگا
بیچ کر مجھ کو مرے منہ میں نوالا دیگا
فرق مٹ تو گئے مابین ِ سفید و سیہ اب
اور کتنا یہ نیا دور اُجالا دیگا
جس کی خاطر میں نے پہچان گنوائی اپنی
اب وہی میرے تشخص کو حوالہ دیگا
سر جھکاتا ہے پذیرائی کے انداز میں آج
کل یہی شہر ہمیں دیس نکالا دیگا
اور کیا دیگا تجھے بندۂ حاجت اے خدا
نذر میں اپنا یہی خالی پیالہ دیگا
گنگنائے گا مرا شعر ہر اک صاحب ِ ذوق
اور مجھے دادِ سخن سوچنے والا دیگا
(۲۰۰۶)