نظم: کاغذی پیرہن ٭ خلیل الرحمٰن اعظمی

کاغذی پیرہن
کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے موسم بدل رہا ہے
اٹھوں اور اب اٹھ کے کیوں نہ اس گھر کے سارے دروازے کھول ہی دوں
مرے دریچوں پہ جانے کب سے دبیز پردے لٹک رہے ہیں
میں کیوں نہ ان کو الگ ہی کر دوں
مرا یہ تاریک و سرد کمرہ
بہت دنوں سے سنہری دھوپ اور نئی ہوا کو ترس رہا ہے
جگہ جگہ جیسے اس کی دیوار کی سپیدی اکھڑ گئی ہے
ہر ایک کونے میں کتنے جالے لگے ہوئے ہیں
مرے عزیزوں، مرے رفیقوں کی یادگاریں
یہ ساری تصویریں جیسے دھندلی سی پڑ گئی ہیں
یہ شیلف، جس میں مری کتابیں ہیں
میز، جس پر مرے سبھی کاغذات بکھرے ہوئے پڑے ہیں
یہ سب کے سب گرد سے اٹے ہیں
مری کتابیں،
میں کیا بتاؤں کہ کس قدر ہیں عزیز مجھ کو
بہت سی ایسی ہیں جو مرے دوستوں نے تحفے میں مجھ کو دی ہیں
وہ دوست جو جاں نثار تھے میرے، کس قدر چاہتے تھے مجھ کو
میں ان کے ہاتھوں کی پیاری تحریر ان کتابوں پہ دیکھتا ہوں
کچھ ایسے الفاظ، ایسے فقرے
جوا ن کے ہاتھوں نے صرف میرے لیے لکھے ہیں
یہ میرے غم خوار، میرے دکھ درد کے امیں ہیں
مرے یہ سب کاغذات جو منتشر پڑے ہیں
مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے میں ان سے بیزار ہو چلا ہوں
اگر چہ یہ جانتا ہوں ان کے سوا ہے کیا کائنات میری
مری تصانیف، میرے مضمون، میری نظموں کی ساری پونجی
وہ شے کہ جس کی نہ کوئی قیمت ہے، اور نہ جو میرے کام آئی
مری کتابیں، مری بیاضیں،
یہ مسودے میری فکر و فن کے
نہ جانے کتنے ہی ناشروں کے حسین فائل میں کچھ دنوں رہ کے
پھر دوبارہ اس اجڑے کمرے میں آ کے آباد ہو گئے ہیں
میں جس زمانے میں ان کتابوں کو لکھ رہا تھا
عجب جنوں تھا
عجیب طوفان میرے دل میں امنڈ رہا تھا
نہ نیند آتی تھی رات کو اور نہ دن کو دم بھر سکون ملتا
کہ جیسے خود زندگی نے ہاتھوں کو میرے لوح و قلم دیا ہو
انھیں کتابوں میں
میرے دل کی تمام دھڑکن
مری تمنّا
مرے ارادوں کی ساری گرمی
مری محبّت کے سارے نشتر چھپے ہوئے ہیں
میں آج ان کاغذات کو یوں اُلٹ پَلٹ کر جو دیکھتا ہوں
تو اپنے ہی دل سے پوچھتا ہوں
یہ میری لکھی ہوئی کتابیں ہیں؟
ایسے اشعار؟
ایسی نظمیں؟
کہ جن پہ خود مجھ کو رشک آئے
یہ سب مرے ذہن کا کرشمہ ہیں؟
(ہائے کیا ہیں!)
میں ان کو پہچانتا نہیں ہوں
یہ ساری تصویریں میری ایسی ہیں
آج جو مجھ سے مختلف ہیں

٭٭٭
خلیل الرحمٰن اعظمی
 
Top