افتخار مغل نظم : کشمیر توجہ چاہتا ہے - افتخار مغل

کشمیر توجہ چاہتا ہے

دنیا کے مہذب انسانو ! کشمیر توجہ چاہتا ہے
کشمیر کے شہر سُلگتے ہیں ، کشمیر کی گلیاں جلتی ہیں
کشمیر کے درد کو پہچانو ، کشمیر توجہ چاہتا ہے
دنیا کے مہذب انسانو ! کشمیر توجہ چاہتا ہے

وہ دیس جسے تم لوگوں نے اس دہر میں یکتا مانا تھا
وہ دیس جسے کل تک تم نے اک خلد کا ٹکڑا مانا تھا
اُس دیس میں انساں کے ہاتھوں ، انسان پہ ظلم روا دیکھو
اُس جنتِ ارضی کو لوگو تم آج ذرا جلتا دیکھو !
اُس خلد کے پھول سلگتے ہیں ، اس باغ کی کلیاں جلتی ہیں
کشمیر کے شہر سُلگتے ہیں ، کشمیر کی گلیاں جلتی ہیں

تم مانو ، چاہے نہ مانو ، کشمیر توجہ چاہتا ہے
دنیا کے مہذب انسانو ! کشمیر توجہ چاہتا ہے

اس عہد میں انساں کے ہاتھوں انسان کی اتنی توہینیں
انسانوں کی آزادی کے پیمان کی اتنی توہینیں
انسان کے خُون کی ارزانی ، دیکھو تو سہی ، سوچو تو سہی
خون سستا ہے ، مہنگا پانی ، دیکھو تو سہی ، سوچو تو سہی
اُس دیس میں ہر صبح ، ہر شب کو دوزخ کی ہوائیں چلتی ہیں
کشمیر کے شہر سُلگتے ہیں ، کشمیر کی گلیاں جلتی ہیں

انسان کے درد کو پہچانو ، کشمیر توجہ چاہتا ہے
دنیا کے مہذب انسانو ! کشمیر توجہ چاہتا ہے

اس عہد میں بھی اُس دھرتی پر نُمرود کی شاہی چلتی ہے
ظالم کی عدالت لگتی ہے قاتل کی گواہی چلتی ہے
ہر ایک زباں پر پابندی ہر ایک نظر پر پہرا ہے
ہر نالہ ہے زنجیر وہاں ہر ایک فغاں پر پہرا ہے
ہر روز وہاں پر ظلمت کی تعزیریں آج بدلتی ہیں
کشمیر کے شہر سُلگتے ہیں ، کشمیر کی گلیاں جلتی ہیں

اُس دھرتی کے غم کو جانو ، کشمیر توجہ چاہتا ہے
دنیا کے مہذب انسانو ! کشمیر توجہ چاہتا ہے
افتخار مغل
 
آخری تدوین:

م حمزہ

محفلین
کشمیر توجہ چاہتا ہے

دنیا کے مہذب انسانو ! کشمیر توجہ چاہتا ہے
کشمیر کے شہر سُلگتے ہیں ، کشمیر کی گلیاں جلتی ہیں
کشمیر کے درد کو پہچانو ، کشمیر توجہ چاہتا ہے
دنیا کے مہذب انسانو ! کشمیر توجہ چاہتا ہے

وہ دیس جسے تم لوگوں نے اس دہر میں یکتا مانا تھا
وہ دیس جسے کل تک تم نے اک خلد کا ٹکڑا مانا تھا
اُس دیس میں انساں کے ہاتھوں ، انسان پہ ظلم روا دیکھو
اُس جنتِ ارضی کو لوگو تم آج ذرا جلتا دیکھو !
اُس خلد کے پھول سلگتے ہیں ، اس باغ کی کلیاں جلتی ہیں
کشمیر کے شہر سُلگتے ہیں ، کشمیر کی گلیاں جلتی ہیں

تم مانو ، چاہے نہ مانو ، کشمیر توجہ چاہتا ہے
دنیا کے مہذب انسانو ! کشمیر توجہ چاہتا ہے

اس عہد میں انساں کے ہاتھوں انسان کی اتنی توہینیں
انسانوں کی آزادی کے پیمان کی اتنی توہینیں
انسان کے خُون کی ارزانی ، دیکھو تو سہی ، سوچو تو سہی
خون سستا ہے ، مہنگا پانی ، دیکھو تو سہی ، سوچو تو سہی
اُس دیس میں ہر صبح ، ہر شب کو دوزخ کی ہوائیں چلتی ہیں
کشمیر کے شہر سُلگتے ہیں ، کشمیر کی گلیاں جلتی ہیں

انسان کے درد کو پہچانو ، کشمیر توجہ چاہتا ہے
دنیا کے مہذب انسانو ! کشمیر توجہ چاہتا ہے

اس عہد میں بھی اُس دھرتی پر نُمرود کی شاہی چلتی ہے
ظالم کی عدالت لگتی ہے قاتل کی گواہی چلتی ہے
ہر ایک زباں پر پابندی ہر ایک نظر پر پہرا ہے
ہر نالہ ہے زنجیر وہاں ہر ایک فغاں پر پہرا ہے
ہر روز وہاں پر ظلمت کی تعزیریں آج بدلتی ہیں
کشمیر کے شہر سُلگتے ہیں ، کشمیر کی گلیاں جلتی ہیں

اُس دھرتی کے غم کو جانو ، کشمیر توجہ چاہتا ہے
دنیا کے مہذب انسانو ! کشمیر توجہ چاہتا ہے

افتخار مغل
اللہ آپ کو اور شاعر کو جزائے خیر دے۔
 
Top