نظم کی اقسام

ایم اے راجا

محفلین
میں اس موضوع میں اساتذہ کرام سے نظم کی اقسام اور ان کی ترتیب اور فن پر معلومات چاہتا ہوں۔
سوال۔
1۔ نظم کی کل کتنی اقسام ہیں۔
2۔ نظم کا عروضی طریقہ و ترتیب کیا ہے، قسم کے لحاظ سے۔
3۔ نظم کی سب سے زیادہ معروف و مستند قسم کون سی ہے، اور اس کی ترتیب عروضی اعتبار سےکیا ہوتی ہے؟
اساتذہ کرام سے گزارش ہیکہ وہ تشریف لائیں تاکہ مجھ سے تمام مبتدی اس دھاگے سے فائدہ حاصل کر سکیں۔
شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کہ نظم سے کیا مراد ہے؟ نظم اور شاعری ہم معنی ہیں۔ اگر اس لحظ سے دیکھیں تو اقسام موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے بھی ہو سکتی ہیں، جیسے قصیدہ۔ کسی کی مدح میں کہا جاتا ہے، اور ساتھ ہی فنی اعتبار سے غزل کی شکل میں۔
مثنوی میں کہانی بیان کی جاتی ہے، اور فنی اعتبار سے اکچر مختصر بحروں میں اور اکگ اکگ اشعار کی صورت مین کہی جاتی ہے، جس مین افاعیل اور بھر تو ایک ہی ہوتی ہے، لیکن ردیف و قوافی بدلتے رہے ہیں۔
اور اگر ’نظم جدید‘ کی اصطلاح والی نظم سے مراد ہے، تو یہ کئی طرح کی ہو سکتی ہے، مخلوط بھی مر کب بھی۔
ایک قسم ہے ’پابند‘ ۔ یعنی جس میں ہر مصرع ایک ہی بحر میں ہو۔ ردیف و قوافی بھی ہوں، غزل کی صورت ہو، یا مرکب صورت میں ہو، یعنی دو تین ردیف و قوافی ہوں (ردیف و قوافی کی ایسی پابندی نہ ہو جیسی غزل میں ہوتی ہے)۔
دوسری ہے معریٰ، یہ بھی پابند کی ہی قسم ہے، لیکن اس میں ردیف و قوافی الگ الگ ہوں پر مصرعے میں۔اسی کو انگریزی میں بلنک ورس بھی کہتے ہیں۔
تیسری قسم ہے آزاد۔ اس میں افاعیل کا حساب رکھا جاتا ہے، یعنی اگر مثال کے طور پر، فاعلن کا استعمال کیا جائے تو ہر مصرع میں فاعلن ضروری ہے۔ کسی مصرع میں دس بار، تو کسی مصرع میں محض ایک دو بار۔ اسی کی ایک قسم وہ بھی ہے جس میں کسی کسی مصرع میں ( اسی مثال میں) فاعلن کو تورا بھی جا سکتا ہے، ایک مرع میں ’فا“، دوسرے میں ’علن‘۔ یہ دونوں آزاد نظم ہی کہی جاتی ہیں۔
اور ایک قسم ہے جسے میں مادر پدر آزاد کہتا ہوں۔ نثری نظم۔ جس میں عروض کا کوئی نظام ہی نہیں مانا جاتا۔ دو چار تجربے میں نے بھی کئے تھے اس قسم کے۔ لیکن ویسے مجھے یہ شکل پسند نہیں۔
مزید قسمیں بھی ہیں، جو آج کل مستعمل نہیں۔ جیسے ساانیٹ، جو ۱۴ مصرعوں کی نظم ہوتی ہے۔ یہ بھی پابند قسم کی ہوتی ہے، لیکن اس میں دو تین التزام رکھے جاتے ہیں قوافی کی شکل میں۔ایک شکل تو ایسی ہے جیسے تین عدد قطعات اور پھر ایک شعر (دونوں مصرعوں میں قوافی، غزل کے مطلع کی طرح۔
پھر قطعہ ہوتا ہے، رباعی ہوتی ہے، ترائیلے، ہائیکو، دوہے، ماہئے وغیرہ جن کی اپنی اپنی عروضی شکلیں ہوتی ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
اس حساب سےیہ نظم کی کون سی قسم بنتی ہے ؟
میں نے سوچا ہے جنوری ایسا
جس میں کوئی ملال بھی نہ ہو
اور تیرا خیال بھی نہ ہو
موسموں کا جلال بھی نہ ہو
وہ گزشتہ سا حال بھی نہ ہو
میں نے سوچا ہے جنوری ایسا
ماہِ نو، سالِ نو ، مبارک ہو
کاش غم کا کوئی تدارک ہو
تو نے سوچا ہے جنوری کیسا ؟
میں نے سوچا ہے جنوری ایسا
اور اسے کس قسم کی نظم کہیں گے ؟
زندہ کیسے رہوں بتا مجھ کو
راہ جینے کی، آ دکھا مجھ کو
کون پوچھے گا حال اب میرا
ہوگا کس کو خیال اب میرا
درد کس کو بھلا سناؤں گا
زخم دل کا کسے دکھاؤں گا
کیسے کاندھوں پہ تُو بٹھاتا تھا
ناز سو سو مرے اٹھاتا تھا
روٹھتا تھا تو تُو مناتا تھا
پیار کے گیت بھی سناتا تھا
کس کو بھائی بڑا کہوں گا میں
ساتھ کس کے چلا کروں گا میں
یاد تیری مجھے رلاتی ہے
رات بھر اب مجھے جگاتی ہے
اتنی ہمت کہاں سے لاؤں میں
یاد دل سے تری بھلاؤں میں
بھول جانا تجھے نہیں بس میں
دل مرا ہے مگر نہیں بس میں
اتنا نہ بد نصیب ہوتا میں
وقتِ رخصت قریب ہوتا میں
کام ایسا میں کاش کر جاتا
ساتھ تیرے ہی میں بھی مر جاتا
پیش ہیں پھول کچھ دعاؤں کے
دل سے اٹھتی ہوئی صداؤں کے
ہو نہ میلا کبھی کفن تیرا
صورتِ گل رہے بدن تیرا
خوف کوئی تجھے ستائے نہ
تجھ پہ سختی ذرا بھی آئے نہ
زندہ ہر اک ادا رہے تیری
لحد روشن سدا رہے تیری
رحمتوں کا نزول ہو تجھ پر
خوش خدا اور رسول ہو تجھ پر
 

زلفی شاہ

لائبریرین
اس حساب سےیہ نظم کی کون سی قسم بنتی ہے ؟
میں نے سوچا ہے جنوری ایسا
جس میں کوئی ملال بھی نہ ہو
اور تیرا خیال بھی نہ ہو
موسموں کا جلال بھی نہ ہو
وہ گزشتہ سا حال بھی نہ ہو
میں نے سوچا ہے جنوری ایسا
ماہِ نو، سالِ نو ، مبارک ہو
کاش غم کا کوئی تدارک ہو
تو نے سوچا ہے جنوری کیسا ؟
میں نے سوچا ہے جنوری ایسا
اور اسے کس قسم کی نظم کہیں گے ؟
زندہ کیسے رہوں بتا مجھ کو
راہ جینے کی، آ دکھا مجھ کو
کون پوچھے گا حال اب میرا
ہوگا کس کو خیال اب میرا
درد کس کو بھلا سناؤں گا
زخم دل کا کسے دکھاؤں گا
کیسے کاندھوں پہ تُو بٹھاتا تھا
ناز سو سو مرے اٹھاتا تھا
روٹھتا تھا تو تُو مناتا تھا
پیار کے گیت بھی سناتا تھا
کس کو بھائی بڑا کہوں گا میں
ساتھ کس کے چلا کروں گا میں
یاد تیری مجھے رلاتی ہے
رات بھر اب مجھے جگاتی ہے
اتنی ہمت کہاں سے لاؤں میں
یاد دل سے تری بھلاؤں میں
بھول جانا تجھے نہیں بس میں
دل مرا ہے مگر نہیں بس میں
اتنا نہ بد نصیب ہوتا میں
وقتِ رخصت قریب ہوتا میں
کام ایسا میں کاش کر جاتا
ساتھ تیرے ہی میں بھی مر جاتا
پیش ہیں پھول کچھ دعاؤں کے
دل سے اٹھتی ہوئی صداؤں کے
ہو نہ میلا کبھی کفن تیرا
صورتِ گل رہے بدن تیرا
خوف کوئی تجھے ستائے نہ
تجھ پہ سختی ذرا بھی آئے نہ
زندہ ہر اک ادا رہے تیری
لحد روشن سدا رہے تیری
رحمتوں کا نزول ہو تجھ پر
خوش خدا اور رسول ہو تجھ پر
ان دونوں نظموں میں بحریں کون کون سی استعمال ہوئی ہیں؟
 

الف عین

لائبریرین
معریٰ وہ نظم ہوتی ہے جس میں افاعیل کے ارکان طے ہوں یعنی ان کی تعداد، دوسرے الفاظ میں ہر مصرع ایک ہی بحر میں ہو، اس میں کچھ مصرعوں میں قوافی ممکن ہیں، لیکن ایسا ہونا ضروری نہیں۔ اگر قوافی کا کچھ التزام رکھا جائے، یا با قاعدہ قطعہ بند اشعار ہوں، یعنی ہر بند میں قوافی ہوں اور ایسے متعدد بند ممکن ہیں، جن میں اپنے اپنے قوافی ہوں، اس نظم کو پابند کہا جا سکتا ہے۔ ان دونوں صنفوں میں حد بندی نہیں ہے، محض قوافی کی تعداد پر ہے، جسے تم پابند مانو، میں اسے معریٰ کہہ سکتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
مثنوی میں ہر شعر ایک مطلع ہوتا ہے (یعنی دونوں مصرعوں میں ردیف قوافی، اور کوئی کہانی بیان ہوتی ہے۔ چنانچہ ’اسی تکنیک سے‘ یعنی دونوں مصرعوں میں الگ الگ ردیف و قوافی کے التزام والی نظم کو مثنوی نما کہا ہے۔
 
محمد خلیل الرحمٰن صاحب کو منسلک کیا جاتا ہے کہ کرم فرمائیں ۔

عشق کی بات بیسوا جانیں
ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں

جنابِ عالی اساتذہ کی موجودگی میں ہم مبتدی ادب سے سن لیں تو یہ مٖحفل کے آداب میں شامل ہوگا۔ ایم اے راجا بھائی اور آپ کا شکریہ کہ ایسی دلچسپ گفتگو چھیڑی ہے۔ جزاک اللہ
ویسے ہماری نالائقی ہے کہ ٹیگ کرنے کے باوجود نادانستگی میں صرفِ نظر کے مرتکب ٹھہرے۔معافی کے خواستگار ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم اساتذہ تو محض سنی سنائی اور تجربے سے حاصل کی ہوئی بات سنا سکتے ہیں۔ ٹیکسٹ بک سے پڑھی ہوئی زیادہ درست باتیں تو طلباء ہی بتا سکتے ہیں!!
 
Top