فرحان محمد خان
محفلین
کی شادی کی خبر سن کر
کبھی تو فرصت دے عرضِ غم کی مرے دلِ غم نواز مجھ کو
کبھی تو محرومِ سوز کر دے جنونِ سوز و گداز مجھ کو
یہ کس نے عذرا کی نو عروسی کا بھیجا پیغامِ راز مجھ کو
کہ چھڑنا ہی پڑا بالآخر غمِ جُدائی کا ساز مجھ کو
غلط کہ مجبورِ دستِ گلچیں بہارِ سر و سمن بنی ہے
نہیں نہیں کس نے کہہ دیا ہے کہ میری عذرا دلہن بنی ہے
یہ کیسے ممکن کے نگہتِ گل کسی کی پابند ہو چمن میں
شگاف کیا نوکِ خار سے ہو عروسِ غنچہ کے پیرہن میں
بھلا کوئی بارباب کیوں کر ہو اُس خودآرا کی انجمن میں
رسائی آوارہ گردزرے کی ماہ خورشید کے وطن میں
وہ شعلۂ تُند و شمع سرکش کوئی اُٹھائے نقاب اُس کا
ہوس کی پھونکوں سے کیا بجھے گا چراغِ حسن و شباب اُس کا
وہ حسن و دوشیزگی کا پیکر مجالِ عرضِ ہوس کہاں ہے
نظر کی جنبش بھی بارِ خاطر حجابِ عصمت جو درمیاں ہے
شباب ہر چند خود نما ہے بہار ہر چند نوجواں ہے
مگر غرورِ شباب و جلوہ قدم قدم پر نگاہ باں ہے
جہاں وہ خلوت فروز ہو گی وہاں ہوس کا گزر نہ ہو گا
زباں کو تابِ سخن نہ ہو گی نظر کو ذوقِ نظر نہ ہو گا
اگرچہ عذرا کی نوعروسی کا مجھ کو اب تک یقیں نہیں ہے
میں جانتا ہوں کہ اس کا محرم مرے علاوہ کہیں نہیں ہے
مگر زمانے کی گردشوں سے وہ کون ہے جو خزیں نہیں ہے
اگر یہ سچ ہے کہ اس کے دل میں وہ جذبۂ اولیں نہیں ہے
تو یا الہی شکستِ عہدِ وفا کی کافر کو یہ سزا دے
کہ اس کو محرومِ سوز کر دے گداز ناآشنا بنا دے
وہ لاکھ چاہے مگر نہ دل میں کبھی محبت کی روشنی ہو
نہ اشک سے آنکھ میں نمی ہو نہ آہ سے درد میں کمی ہو
لطیف جذبوں سے اس کا دامن خدا کرے اس طرح تہی ہو
کہ جیسے مر مر کی مورتی میں نہ تازگی ہو نہ زندگی ہو
کوئی بھی گائے نہ گیت اس کا کوئی بھی چھیڑے نہ راگ اس کا
غذاب بن جائے یا الہی خود اس کے حق میں سہاگ اس کا
کبھی تو محرومِ سوز کر دے جنونِ سوز و گداز مجھ کو
یہ کس نے عذرا کی نو عروسی کا بھیجا پیغامِ راز مجھ کو
کہ چھڑنا ہی پڑا بالآخر غمِ جُدائی کا ساز مجھ کو
غلط کہ مجبورِ دستِ گلچیں بہارِ سر و سمن بنی ہے
نہیں نہیں کس نے کہہ دیا ہے کہ میری عذرا دلہن بنی ہے
یہ کیسے ممکن کے نگہتِ گل کسی کی پابند ہو چمن میں
شگاف کیا نوکِ خار سے ہو عروسِ غنچہ کے پیرہن میں
بھلا کوئی بارباب کیوں کر ہو اُس خودآرا کی انجمن میں
رسائی آوارہ گردزرے کی ماہ خورشید کے وطن میں
وہ شعلۂ تُند و شمع سرکش کوئی اُٹھائے نقاب اُس کا
ہوس کی پھونکوں سے کیا بجھے گا چراغِ حسن و شباب اُس کا
وہ حسن و دوشیزگی کا پیکر مجالِ عرضِ ہوس کہاں ہے
نظر کی جنبش بھی بارِ خاطر حجابِ عصمت جو درمیاں ہے
شباب ہر چند خود نما ہے بہار ہر چند نوجواں ہے
مگر غرورِ شباب و جلوہ قدم قدم پر نگاہ باں ہے
جہاں وہ خلوت فروز ہو گی وہاں ہوس کا گزر نہ ہو گا
زباں کو تابِ سخن نہ ہو گی نظر کو ذوقِ نظر نہ ہو گا
اگرچہ عذرا کی نوعروسی کا مجھ کو اب تک یقیں نہیں ہے
میں جانتا ہوں کہ اس کا محرم مرے علاوہ کہیں نہیں ہے
مگر زمانے کی گردشوں سے وہ کون ہے جو خزیں نہیں ہے
اگر یہ سچ ہے کہ اس کے دل میں وہ جذبۂ اولیں نہیں ہے
تو یا الہی شکستِ عہدِ وفا کی کافر کو یہ سزا دے
کہ اس کو محرومِ سوز کر دے گداز ناآشنا بنا دے
وہ لاکھ چاہے مگر نہ دل میں کبھی محبت کی روشنی ہو
نہ اشک سے آنکھ میں نمی ہو نہ آہ سے درد میں کمی ہو
لطیف جذبوں سے اس کا دامن خدا کرے اس طرح تہی ہو
کہ جیسے مر مر کی مورتی میں نہ تازگی ہو نہ زندگی ہو
کوئی بھی گائے نہ گیت اس کا کوئی بھی چھیڑے نہ راگ اس کا
غذاب بن جائے یا الہی خود اس کے حق میں سہاگ اس کا
رئیس امروہوی