نظم :یہ جہاں نہیں ہے جنّت (اپنی بیگم کی نذر )

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم !

ایک بار بیگم کچھ ناراض ہوگئیں تو ایک نظم لکھی ،آخر کار مان گئیں-سوچا یہاں بھی پیش کر دوں کہ مجرّب اور اکسیر نسخہ ہے -

نظم :یہ جہاں نہیں ہے جنّت (اپنی بیگم کی نذر )

یہ جہاں نہیں ہے جنّت ،یہاں چپقلِش بھی ہوگی
کبھی باہمی محبّت تو کبھی خلِش بھی ہوگی

کبھی کوفتے پکیں گے ،کبھی روسٹ فِش بھی ہوگی
کبھی تیری ڈِش بھی ہوگی ،کبھی میری ڈِش بھی ہوگی

کبھی ہوگی چوما چاٹی ،کبھی ہوگی ہاتھا پائی
کبھی یہ چلن بھی ہوگا ،کبھی وہ روِش بھی ہوگی

نہیں ہوتی ہے بہاراں ،کبھی پورا سال جاناں!
کبھی ٹھنڈ بھی لگے گی ،تو کبھی تپِش بھی ہوگی

مری گفتگو بھی یکساں نہیں پاؤ گی ہمیشہ
یہ کبھی تو بکھرے موتی ،یہ کبھی ربِش بھی ہوگی

میں اگر ہوں گل تمھارا ،مرے خار بھی تو چاہو
جو مہک سے حظ اٹھاؤ ،تو چبھن کو بھی سراہو



 
بہت خوب۔ بہت سی داد قبول فرمائیے۔

ہماری پیروڈی بھی ملاحظہ ہو۔

آج حاضر ہے یاسر شاہ بھائی کی خوبصورت نظم کی پیروڈی



یہ ہے شوہروں کی جنّت ،یہاں چپقلِش بھی ہوگی
کبھی سوکنوں کی صورت یہ بڑی خلِش بھی ہوگی

کبھی وہ پکارہی ہے ، کبھی ہم پکا رہے ہیں
کبھی اُس کی ڈِش بھی ہوگی ،کبھی اپنی ڈِش بھی ہوگی

کبھی منہ لپیٹ سوؤں تو کبھی میں گُل بداماں
’’کبھی یہ چلن بھی ہوگا ،کبھی وہ روِش بھی ہوگی‘‘

’’نہیں ہوتی ہے بہاراں ،کبھی پورا سال جاناں!
کبھی ٹھنڈ بھی لگے گی ،تو کبھی تپِش بھی ہوگی‘‘

مری گفتگو بھی یکساں نہیں پاؤ گےہمیشہ
کبھی پیار سے ملوں گی، کبھی سر زنِش بھی ہوگی

میں اگر ہوں گل تمھاری،مرے خار بھی تو چاہو
’’جو مہک سے حظ اٹھاؤ ،تو چبھن کو بھی سراہو‘‘​



 

الف عین

لائبریرین
ویسے مزاحیہ شاعری میں اغلاط چل جاتی ہیں لیکن پھر بھی بتا تو دوں کہ یاسر شاہ اور محمد خلیل الرحمٰن دونوں کی تخلیقات میں ایک ایک قافیے کی غلطی ہے
مطلع میں ایطا کا عیب ہے جو دونوں میں ہی ہے
سرزنش قافیہ غلط ہے کہ ش سے پہلے ن پر زبر ہے اس لفظ میں، قافیہ زیر کی حرکت کا ہے
 

یاسر شاہ

محفلین
ویسے مزاحیہ شاعری میں اغلاط چل جاتی ہیں لیکن پھر بھی بتا تو دوں کہ یاسر شاہ اور محمد خلیل الرحمٰن دونوں کی تخلیقات میں ایک ایک قافیے کی غلطی ہے
مطلع میں ایطا کا عیب ہے جو دونوں میں ہی ہے
سرزنش قافیہ غلط ہے کہ ش سے پہلے ن پر زبر ہے اس لفظ میں، قافیہ زیر کی حرکت کا ہے

الف عین صاحب !جزاک اللہ کہ آپ رہنمائی فرماتے ہیں -

جس مقام کی نشاندہی آپ نے فرمائی ہے وہ قافیے کا نقص ایطائے خفی ہے جو جمہور ادباء کے نزدیک عیب نہیں -یہاں پوری نظم میں مشترک حرف "ش" اور مشترک حرکت "زیر" ہے جو "ش " سے ماقبل ہے -پہلے شعر سے قافیے کے تعین کا نظریہ دراصل اس نقص کا موجب ہے جس میں "ل " بھی شامل ہورہا ہے لیکن قافیے کی تخصیص اگر پوری نظم کو دیکھ کر کریں تو یہ نقص نقص نہیں رہتا -

باقی رہا یہ نظریہ کہ اساتذه کا نقص بھی شاعری کا نقص ہی شمار ہوگا اور قابل اتبا ع نہ ہوگا تو اس کی بھی تفصیل یہ ہے کہ وہ نقص جو اساتذه کے کلام میں تواتر سے پایا جائے دراصل عیب ہی نہیں اور ایطا ئے خفی کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اساتذه کے کلام میں ہزاروں امثلہ ایطا ئے خفی کی مل جائیں گی ایک مثال جو فی الحال ذہن میں ہے غالب کی غزل میں ہے :

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

اس غزل کے آئندہ قوافی :

خدا -برا -خطا -رہنما وغیرہ ہیں

البتہ اساتذه کے کلام کے وہ عیوب جو مفردات ہیں قابل اتباع نہیں بلکہ لائق اجتناب ہیں جیسے سودا نے دھیان کا تلفّظ اپنی مشہور غزل میں غلط باندھا ہے :

جب نظر ان کی آن پڑتی ہے
زندگی تب دھیان پڑتی ہے

یہاں اس لڑی میں پہلے بھی ایطائے خفی کی کچھ بات ہو چکی ہے :

برائے اساتذہ
 

یاسر شاہ

محفلین
نظم کی باریکیاں شادی شدہ اشخاص جانیں،
ہمیں آپ کی آواز کا لطف آیا۔
کافی young معلوم ہوئی :headphone:

شکریہ منیب بھائی! بس آپ کی محبّت یو ٹیوب تک لے آئی -آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا -

نقل کر کے کراہنے کا مرے
میری بیماریاں چراتے ہیں

(جون )
 

یاسر شاہ

محفلین
Top