محمداحمد
لائبریرین
پشیمانی
میں یہ سوچ کر اُس کے در سے اُٹھا تھا
کہ وہ روک لے گی منا لے گی مُجھ کو
ہواؤں میں لہراتا آتا تھا دامن
کہ دامن پکڑ کے بٹھا لے گی مجھ کو
قدم ایسے انداز سے اُٹھ رہے تھے
کہ آواز دے کے بُلا لے گی مُجھ کو
مگر اُس نے روکا نہ مُجھ کو منایا
نہ دامن ہی پکڑا نہ مُجھ کو بُلایا
میں آہستہ آہستہ بڑھتا ہی آیا
یہاں تک کہ اُس سے جدا ہو گیا میں
کیفی اعظمی