منصور آفاق
محفلین
سرگوشیاں
شرم سار راتوں اور پُر ثواب صبحوں سے سرگوشیاں
صبح جیسے پُرسعادت ساعتوں کا افتتاح
رات جیسے منجمد ہو جائیں تیرہ تر گناہ
مہر جیسے خیر وبرکت کی کمائی حشر میں
چاند جیسے شاخ کی ٹوٹی ہوئی قوسِ بہار
دوپہر اس سوچ میں گم تُو نے کیوں چھوڑا مجھے
اور تارے جیسے بوندیں شال پر بکھری ہوئی
شام جیسے خون میں ڈوبی ہوئی قربان گاہ
اور شفق جیسے لہو میں گم سپاہی کا لباس
کس طرح ممکن ہوا یہ روز و شب کا معجزہ
عبادت کار پھولوں اور محبت بار پیڑوں سے سرگوشیاں
پھول جیسے تیرے جوڑے پر مکمل تبصرہ
اور کلی جیسے تعلق کی خبر پھیلی ہوئی
پیڑ جیسے نیکیوں کا کوئی اونچا سائباں
اور تنا جیسے کسی کا غیر فانی اعتماد
شاخ جیسے کوئی انگڑائی بدن میں دیر تک
خار جیسے بسترِ شب پر مسلسل انتظار
نرم پتی جس طرح کانوں کی نازک سی لویں
اور پھل تیرے لبوں کے تلخ و شیریں ذائقے
کس طرح رو کش ہوئیں یہ نخل و گل کی دیویاں
مظلوم زمین اور بے رحم آسمان سے سرگوشیاں
آسماں جیسے مرے اند ر کی وسعت کا حصار
اور زمین جیسے کسی ماں کی مقدس چاہتیں
کہکشاں جب تم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی
گرم صحرا جیسے لا محدود کرب ِ انتظار
جلوہ ، قوس ِ قزح تیرے بدن کے زاویے
سر د پانی تیرے میٹھے نرم لہجے کی طرح
کوہ جیسے میری سوچوں کی بلندی کا وقار
کالے بادل دشتِ جاں میں درد کی تاریک شام
اور ہوا جیسے تری سانسوں کا کومل زیر وبم
کس طرح جاری ہوا ارض و سما کا سلسلہ
سر گوشیوں کے سوالوں اور حیرت زدہ جوابوں سے سر گوشیاں
وادی ، ذہن و نظر میں ایسے پیچیدہ سوال
اضطراب افزا تسلسل سے جنم لیتے رہے
آدمی اور کائناتِ خارجی میں ارتباط
کیوں ہے ۔ کیا ہے۔ کس طرح ہے اور آخر کس لئے
مجھ پہ کیا موقوف شاید کوئی بھی سمجھا نہیں
شرم سار راتوں اور پُر ثواب صبحوں سے سرگوشیاں
صبح جیسے پُرسعادت ساعتوں کا افتتاح
رات جیسے منجمد ہو جائیں تیرہ تر گناہ
مہر جیسے خیر وبرکت کی کمائی حشر میں
چاند جیسے شاخ کی ٹوٹی ہوئی قوسِ بہار
دوپہر اس سوچ میں گم تُو نے کیوں چھوڑا مجھے
اور تارے جیسے بوندیں شال پر بکھری ہوئی
شام جیسے خون میں ڈوبی ہوئی قربان گاہ
اور شفق جیسے لہو میں گم سپاہی کا لباس
کس طرح ممکن ہوا یہ روز و شب کا معجزہ
عبادت کار پھولوں اور محبت بار پیڑوں سے سرگوشیاں
پھول جیسے تیرے جوڑے پر مکمل تبصرہ
اور کلی جیسے تعلق کی خبر پھیلی ہوئی
پیڑ جیسے نیکیوں کا کوئی اونچا سائباں
اور تنا جیسے کسی کا غیر فانی اعتماد
شاخ جیسے کوئی انگڑائی بدن میں دیر تک
خار جیسے بسترِ شب پر مسلسل انتظار
نرم پتی جس طرح کانوں کی نازک سی لویں
اور پھل تیرے لبوں کے تلخ و شیریں ذائقے
کس طرح رو کش ہوئیں یہ نخل و گل کی دیویاں
مظلوم زمین اور بے رحم آسمان سے سرگوشیاں
آسماں جیسے مرے اند ر کی وسعت کا حصار
اور زمین جیسے کسی ماں کی مقدس چاہتیں
کہکشاں جب تم ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی
گرم صحرا جیسے لا محدود کرب ِ انتظار
جلوہ ، قوس ِ قزح تیرے بدن کے زاویے
سر د پانی تیرے میٹھے نرم لہجے کی طرح
کوہ جیسے میری سوچوں کی بلندی کا وقار
کالے بادل دشتِ جاں میں درد کی تاریک شام
اور ہوا جیسے تری سانسوں کا کومل زیر وبم
کس طرح جاری ہوا ارض و سما کا سلسلہ
سر گوشیوں کے سوالوں اور حیرت زدہ جوابوں سے سر گوشیاں
وادی ، ذہن و نظر میں ایسے پیچیدہ سوال
اضطراب افزا تسلسل سے جنم لیتے رہے
آدمی اور کائناتِ خارجی میں ارتباط
کیوں ہے ۔ کیا ہے۔ کس طرح ہے اور آخر کس لئے
مجھ پہ کیا موقوف شاید کوئی بھی سمجھا نہیں
منصور آفاقؔ