فرخ منظور
لائبریرین
مجھے شکیب جلالی کی یہ نظم بہت پسند ہے۔ آج ایک عرصے کے بعد اس نظم کے خوابیدہ مصرعوں نے ذہن کے گوشوں سے نکل کر انگڑائیاں لی تو سوچا کیوں نہ اس نظم کو تلاش کیا جائے۔ مگر افسوس ایسی خوبصورت نظم صرف ہلا گلا سائٹ پر ملی اور وہ بھی اغلاط سے بھرپور۔ اپنی یاد داشت کی مدد سے ان اغلاط کو درست تو کر رہا ہوں۔ مگر پھر بھی سو فیصد درست ہونے کا امکان کم ہے۔ احباب سے گزارش ہے کہ اگر کسی کے پاس کتابی شکل میں یہ نظم موجود ہو تو اسے درست کر دیں، بہت عنایت ہو گی۔
جشنِ عید
سبھی نے عید منائی مرے گلستاں میں
کسی نے پھول پروئے، کسی نے خار چنے
بنام اذنِ تکلم، بنامِ جبر و سکوت
کسی نے ہونٹ چبائے، کسی نے گیت بُنے
بڑے غضب کا گلستاں میں جشنِ عید ہوا
کہیں تو بجلیاں کوندیں کہیں چنار جلے
کہیں کہیں کوئی فانوس بھی نظر آیا
بطورِ خاص، مگر قلبِ داغ دار جلے
عجب تھی عیدِ خمستاں، عجب تھا رنگِ نشاط
کسی نے بادۂ ساغر، کسی نے اشک پیے
کسی نے اطلس و کمخواب کی قبا پہنی
کسی نے چاکِ گریباں ،کسی نے زم سیے
ہمارے ذوقِ نظارہ کو عید کے دن بھی
کہیں پہ سایۂ ظلمت، کہیں پہ نور ملا
کسی نے دیدہ و دل کے کنول کھلے پائے
کسی کو ساغرِ احساس چکنا چور ملا
بہ فیض عید بھی پیدا ہوئی نہ یک رنگی
کوئی ملول ، کوئی غم سے بے نیاز رہا
بڑا غضب ہے، خداوندِ کوثر و تسنیم
کہ روز عید بھی طبقوں کا امتیاز رہا
(شکیب جلالی)
جشنِ عید
سبھی نے عید منائی مرے گلستاں میں
کسی نے پھول پروئے، کسی نے خار چنے
بنام اذنِ تکلم، بنامِ جبر و سکوت
کسی نے ہونٹ چبائے، کسی نے گیت بُنے
بڑے غضب کا گلستاں میں جشنِ عید ہوا
کہیں تو بجلیاں کوندیں کہیں چنار جلے
کہیں کہیں کوئی فانوس بھی نظر آیا
بطورِ خاص، مگر قلبِ داغ دار جلے
عجب تھی عیدِ خمستاں، عجب تھا رنگِ نشاط
کسی نے بادۂ ساغر، کسی نے اشک پیے
کسی نے اطلس و کمخواب کی قبا پہنی
کسی نے چاکِ گریباں ،کسی نے زم سیے
ہمارے ذوقِ نظارہ کو عید کے دن بھی
کہیں پہ سایۂ ظلمت، کہیں پہ نور ملا
کسی نے دیدہ و دل کے کنول کھلے پائے
کسی کو ساغرِ احساس چکنا چور ملا
بہ فیض عید بھی پیدا ہوئی نہ یک رنگی
کوئی ملول ، کوئی غم سے بے نیاز رہا
بڑا غضب ہے، خداوندِ کوثر و تسنیم
کہ روز عید بھی طبقوں کا امتیاز رہا
(شکیب جلالی)