عرفان علوی
محفلین
احبابِ گرامی ، سلام عرض ہے .
ایک نظم پیشِ خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
’’موڑ‘‘
یہی تو موڑ تھا وہ
جہاں سے میں نے اور تم نے چُنے تھے اپنے رستے
تہیہ کر لیا تھا
کہ اب تنہا چلیں گے
نہ ہونگے اب کبھی محتاج ہَم اک دوسرے كے
پہنچ جائینگے اپنی منزلوں تک ہنستے ہنستے
مگر پِھر چلتے چلتے
مقام اب وہ بھی آیا ہے سفر میں
جہاں دونوں ہی کو خود سے گِلے ہیں
سفر کی دھوپ میں چہرہ جلا کر
غبارِ راہ سے دامن کو بھر کر
ہزاروں تجربوں کا بوجھ لے کر
ہَم آج اِس موڑ پر پِھر آ ملے ہیں
تقاضہ تو یہی حالات کا ہے
کہ میں اور تم یہاں سے ساتھ ہو لیں
مگر اب دِل میں بھی ہمت نہیں ہے
بدن بھی ٹوٹ کر شل ہو چکا ہے
نہیں اٹھتی نظر منزل کی جانب
نہیں بڑھتے قدم اب راستے پر
چلو اِس موڑ پر ہی ہَم سفر کو ختم کر دیں
اور اپنی بےبسی پر خون رو لیں
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
ایک نظم پیشِ خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
’’موڑ‘‘
یہی تو موڑ تھا وہ
جہاں سے میں نے اور تم نے چُنے تھے اپنے رستے
تہیہ کر لیا تھا
کہ اب تنہا چلیں گے
نہ ہونگے اب کبھی محتاج ہَم اک دوسرے كے
پہنچ جائینگے اپنی منزلوں تک ہنستے ہنستے
مگر پِھر چلتے چلتے
مقام اب وہ بھی آیا ہے سفر میں
جہاں دونوں ہی کو خود سے گِلے ہیں
سفر کی دھوپ میں چہرہ جلا کر
غبارِ راہ سے دامن کو بھر کر
ہزاروں تجربوں کا بوجھ لے کر
ہَم آج اِس موڑ پر پِھر آ ملے ہیں
تقاضہ تو یہی حالات کا ہے
کہ میں اور تم یہاں سے ساتھ ہو لیں
مگر اب دِل میں بھی ہمت نہیں ہے
بدن بھی ٹوٹ کر شل ہو چکا ہے
نہیں اٹھتی نظر منزل کی جانب
نہیں بڑھتے قدم اب راستے پر
چلو اِس موڑ پر ہی ہَم سفر کو ختم کر دیں
اور اپنی بےبسی پر خون رو لیں
نیازمند ،
عرفان عابدؔ